۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مسلم ممالک و فلسطین

حوزہ/ عالمی طاقتیں بھلے ہی غزہ کو برباد کرنے پر تلی ہوں ،لیکن ان کی حقیقت آشکار ہوچکی ہے ۔دنیا کی بڑی طاقتیں مل کر ایک معمولی فوجی تنظیم کو شکست نہیں دے سکیں توپھر وہ عالمی نظام کو اپنے مطابق کیسے بدل سکتی ہیں ؟

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی | امریکہ نے ایک بارپھر غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کردیاہے ۔قطر اورالجزائر نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی تھی ،تاکہ مظلوم اور بے بس فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت سے بچایاجاسکے ،جس کا عالمی سطح پر خیر مقدم کیا گیا تھا،لیکن امریکہ نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے اس قرارداد کو ویٹوکردیا۔قطر اورالجزائر نے ایسے پرآشوب حالات میں قرارداد پیش کی تھی کہ جب اسرائیل رفح علاقے میں پناہ گزیں فلسطینیوں کو مسلسل نشانہ بنارہاہے ۔رفح وہ علاقہ ہے جہاں لاکھوں بے گھر مظلوم فلسطینی اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں میں موجود ہیں ۔اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کئی بار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ رفح میں بھی فوج کاروائی شروع کریں گے کیونکہ ان کے دعوے کے مطابق رفح میں حماس کے جنگجو چھپے ہوئے ہیں ۔اگر ان کے اس دعوے کو درست مان لیاجائے تو پھر حملے کے وقت حماس کے جنگجوئوں اور مظلوم فلسطینیوں کے مابین تشخیص کیسے کی جائے گی ۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی فوجیں نسل کشی پر آمادہ ہیں ۔نسل کشی کے لئے وہ مختلف بہانے تلاش کررہے ہیں ۔ورنہ اسرائیلی حکومت اور فوجوں کے بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود اب تک حماس کو پوری طرح ختم نہیں کیاجاسکا ،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑاہے ۔امریکہ جو اس جنگ میں پوری طرح اسرائیل کے ساتھ کھڑاہے ،اور مسلسل جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرکے اسرائیل نوازی کا ثبوت دے رہاہے ،وہ بھی لامحدود فوجی امداد کے باوجود اسرائیل کو شکست سے نہیں بچاسکا۔اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی یہ تیسری قرارداد تھی جو ۲۱ فروری کو پیش کی گئی تھی ۔تیرہ اراکین نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی حمایت کی جبکہ برطانیہ نے ہمیشہ کی طرح منافقانہ کردار اداکرتے ہوئے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کیااورامریکہ نے قرارداد کو ویٹو کرکے اسرائیل کو جارحیت کا کھلالائسنس دیدیا۔اس کے بعد تمام مزاحمتی گروہوں نے بالاتفاق بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ غزہ کی تباہی کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے ۔چونکہ امریکہ اپنے حلیف ملکوں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہے لہذا جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا اس کی مجبوری تھی ۔

غزہ میں انسانی صورت حال تشویش ناک ہے ۔پورا شہر کھنڈر بن چکاہے ۔کشتوں کے پشتے لگے ہوئے ہی ۔لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔جن کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے وہ رفح کے امدادی کیمپوںمیں پناہ گزیں ہیں،جنکی تعداد لاکھوں میں ہے۔اسرائیلی فوجوں کی درندگی کا یہ عالم ہے کہ وہ جنازوں کو قبروں سے نکال کر لاشوں کی توہین کررہے ہیں ۔بچوں اور خواتین کو خاص طورپر نشانہ بنایاجارہاہے ۔طبی ڈھانچہ برباد کردیاگیاہے ۔دوائوں کی قلت کی وجہ سے زخمیوں اور مریضوں کا علاج نہیں ہوپارہاہے ۔کھانے پینے کی اشیا کا بحران ہے ۔گذشتہ دنوں شمالی غزہ میں ان مظلوموں کو بھی نشانہ بنایاگیاجو کھانے کے لئے قطار میں کھڑے ہوئے تھے ۔ظاہر ہے نسل کشی کے لئے ایسی جگہوں پر حملہ کیاجاتاہے جہاں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوسکتے ہیں ۔اس لئے اسپتالوں ،اسکولوں ،پناہ گزین کیمپوں ،عبادت گاہوں اور امدادی سامان کی تقسیم کے مقامات کو ہدف بنایاگیا۔خبررساں ایجنسیوں کے مطابق روز آنہ سیکڑوں لوگ مارے جارہے ہیں ،جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کوئی مناسب اقدام نہیں کرپارہی ہیں ۔اگر اقوام متحدہ جیسے ادارے جنگ بندی میں مؤثر کردارادانہیں کرسکتے تو پھر ان اداروں کے قیام کا فائدہ کیاہے؟اقوام متحدہ عالمی سلامتی کے قیام میں ہمیشہ ناکام رہاہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسے تمام ادارے اور تنظیمیں استعمار ی طاقتوں کے زیر اثر ہیں اور ان کی عدم حمایت کی بناپر ان اداروں کا کوئی وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔اس لئے استعمار ان تمام اداروں اور تنظیموں کو اپنے مفاد میں استعمال کرتاآیاہے اور کررہاہے ۔لہذا ہمیں اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کی دوسری تنظیموں سے کوئی توقع نہیں ہے ۔ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں لاشوں کو شمارکریں اور مظلوم انسانوں کی امداد کے نام پر فنڈ جمع کرتےرہیں ۔

دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اور نام نہاد امن پسند ملک بھی غزہ کی جنگ میں دُہرے معیار کامظاہرہ کررہے ہیں ۔خاص طورپر مغربی ممالک جو امریکہ کے اتحادی بھی ہیں ، زبانی طورپر غزہ کی حمایت کررہے ہیں مگر عملی طورپر وہ اسرائیل کے ساتھ ہیں ۔اسی طرح وہ ملک جو غیر جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ بھی اسرائیل نوازی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔مسلمان ملکوں کی اکثریت جو استعماری کالونی کا حصہ ہیں ،وہ بھی اس جنگ میں اظہار ہمدردی اور بیان بازی کے علاوہ کوئی مؤثر اقدام نہیں کرسکے ۔اس جنگ نے انہیں بھی بے نقاب کردیاہے جو مسلمانوں کی رہبری کا دعویٰ کرتے تھے ۔خاص طورپر سعودی عرب اور اس کے حلیف ملکوں پر اب مسلمانوں کو اعتبار نہیں رہا ۔یہ الگ بات کہ غزہ کی جنگ نے عرب ملکوں کے سیاسی اور ذاتی مفادات کو بہت نقصان پہونچایاہے اور وہ تمام معاہدے جو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ متوقع تھے ، التواکا شکار ہیں ۔یہ حماس کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے مسلمان ملکوں کو عالم اسلام کے سامنے بے نقاب کردیا ۔پوری دنیا کو یہ معلوم ہوچکاہے کہ مسلمان ملک استعماری طاقتوں کے آلۂ کار ہیں اور ان کی اپنی کوئی انفرادی حیثیت نہیں ہے ۔جو لوگ ان کی کورانہ تقلید کررہے تھے انہیں بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔خاص طورپر ہندوستان کے مسلمانوں کو درس عبرت لینا چاہیے ۔جو قوم خودسازی میں ناکام ہو اور دوسروں پر تکیہ کرے اس کا زوال یقینی ہے ۔اگر ہندوستانی مسلمان اپنے تشخص اور وجود کی جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے بازوئوں پر بھروسہ کرنا ہوگا۔دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں تحفظ نہیں دے سکتی اور نہ ان کے مسائل کو حل کرواسکتی ہے ۔اس لئے صورت کی تبدیلی کے لئے ہمیں خود میدان عمل میں آنا ہوگا ۔اگر ہماری قیادت مصلحت آمیز سکوت اختیارنہ کرتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ہمیں غزہ ،لبنان اور یمن سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔

عالمی طاقتیں بھلے ہی غزہ کو برباد کرنے پر تلی ہوں ،لیکن ان کی حقیقت آشکار ہوچکی ہے ۔دنیا کی بڑی طاقتیں مل کر ایک معمولی فوجی تنظیم کو شکست نہیں دے سکیں توپھر وہ عالمی نظام کو اپنے مطابق کیسے بدل سکتی ہیں ؟اس وقت دنیا مختلف گروہوں اور دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ہر ملک حال کے تناظر میں مستقبل کو دیکھ رہاہے ۔خاص طورپر وہ طاقتیں جو شمار میں نہیں آتی تھیں ،اب انہیں بھی اہمیت دی جارہی ہے ۔یمن کے حوثیوں نے بحر احمر کی آبی گذرگاہوں کو اسرائیل اور امریکہ کے لئے تنگ کردیاہے ،جس سے یہ پیغام عام ہواہے کہ اگر دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتیں تو وہ دوسروں کے تحفظ کو کیسے یقینی بناسکتی ہیں ۔خاص طورپر روس اور یوکرین کی جنگ نے دنیا کو اپنے موقف پر از سرنوغور کرنے پر مجبور کردیاہے ۔یوکرین کہ جس کی حمایت میں دنیا کی بڑی طاقتیں کھڑی تھیں،اس کے باوجود وہ برباد ہوچکاہے ۔جنگ اسلحے اور فوجیوں کی تعداد سے نہیں لڑی جاتی بلکہ حوصلے اور منصوبہ سازی سے لڑی جاتی ہے ۔یوکرین کی تباہی اور حماس کی مقاومت نے یہ ثابت کردیاکہ دنیا کی کوئی بھی بڑی طاقت کسی کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی اور کسی بھی معمولی فوجی گروہ کو کمتر نہیں آنکا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ یک قطبی نظام کے خاتمے سے پریشان ہے اور غزہ میں جنگ بندی کو اپنی شکست سے تعبیر کررہاہے ۔غزہ میں جنگ بندی عالمی طاقتوں کےشرائط پر ممکن نہیں ہے ۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو جنگ بندی بہت پہلے ہوچکی ہوتی ۔فی الوقت جنگ بندی کا سارا دارومدار مزاحمتی تنظیموں پر ہے ۔جنگ بندی مشروط ہوگی لیکن اس بار گیند مزاحمتی تنظیموں کے پالے میں ہے ۔دیکھنایہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کب تک ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں گے ۔یہ جنگ جس قدر طولانی ہوگی استعمار ی طاقتوں کے نقصان بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔جب کہ اس جنگ کے نتائج طے ہوچکے ہیں ،لیکن عالمی استکباری نظام ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔یہ انکار اس کی رہی سہی ساکھ کو بھی برباد کردے گا۔اس لئے عالمی طاقتوں کو مزاحمتی گروہوں سے امن مذاکرات کرنا ہوں گے،جس کے بغیر جنگ بندی ممکن نظر نہیں آتی ۔جنگ بندی کے بعد بھی جنگ کا خطرہ اس وقت تک برقراررہے گاجب تک فلسطین کی خودمختاری کو تسلیم نہ کرلیاجائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .