۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
مولانا نجیب الحسن

حوزہ/ اسرائیلی حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلسل غزہ پر یلغار کر کے انہیں صحرائے سینا کی طرف لے جائے اور وہاں کیمپوں میں انہیں بسائے اس کے لئے پیسے بھی خلیجی ممالک سے لے یہ منصوبہ بھی ابھی تک فلسطینی عوام کی مزاحمت کی بنا پر ناکام رہا ہے ۔

تحریر: حجۃ الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | حماس و اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کے بعد جب دوبارہ جنگ کا بگل بجا تو لگ رہا تھا جلد ہی یہ معرکہ پھر وقتی طور پر تھم جائے گا اور معاملات کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے پر طرفین راضی ہو جائیں گے لیکن اس کے برخلاف جنگ کے شعلے بڑھتے گئے اور اب سو دنوں کے بعد کچھ پتہ نہیں جنگ کب تک چلے گی اس وقت دنیا کے سامنے غزہ کے تباہی کے مناظر ہیں پورا غزہ پٹی کا علاقہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے سوال یہ ہے کہ چو طرفہ تنقید کے باجود ہر طرف احتجاج کے باوجود اپنی شکست فاش کے باوجود اسرائیل کیوں مسلسل حملے کر رہا ہے اس سے صہیونی حکومت کو کیا حاصل ہو رہا ہے ؟ اسکے پیچھے اگر ہم غور کریں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے وہ اسرائیل کے آقاوں اور بڑی طاقت کی جانب سے گرین سگنل ہے کہ تم حملے کر تے رہو ہم تمہیں بچاتے رہیں گے اور یہ اس لئے ہے کہ یہ بڑی طاقتیں صہیونی حکومت کی اس سازش کے ساتھ ہیں جس میں صہیونی حکومت پورے علاقے پر اپنا قبضہ یا اپنی کٹھ پتلی حکومت کو قائم کر فلسطینیوں کو دربدر کرنا چاہتی ہے ، اسرائیل کے اس خطرناک منصوبے میں فلسطینیوں کو غزہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کرنا اور انہیں مصر کی طرف دھکیلنا ہے ۔

شک نہیں کہ جنگی سازو سامان اور امریکہ و یورپ اور بعض عربی ممالک کی پشت پناہی میں اسرائیل نے اپنی پوری طاقت جھونک دی کہ حماس کا نام و نشان مٹا دیا جائے اور فلسطینیوں کو پناہ گزیں کیمپوں کی طرف دھکیل دیا جائے لیکن اب تک صہیونی حکومت کا اس میں ناکامی ہی نصیب ہوئی ہے ۔

وہ مغرور حکومت جو غزہ پر حملے کے وقت کہہ رہی تھی یہ جنگ اسرائیلیوں کے قیدیوں کے آزاد ہونے تک جاری رہے گی مجبور ہوئی کہ حماس کے ساتھ بات چیت کے ٹیبل پر آئے اور دنیا نے دیکھا کہ مسئلہ بات چیت اور گفتگو کے ذریعہ ہی حل ہو سکا ، جب صہیونی حکومت کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی کہ ہم طاقت کے بل ہر اپنے قیدیوں کو آزاد کرا لیں گے ، ابھی تک تو ایسا نہیں ہو سکا ہے اور بظاہر آگے بھی نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا اگر اسرائیل کو اپنے قیدیوں کو آزاد کرانا ہی ہے تو اسے بات چیت کے ٹیبل پر آنا ہی ہوگا کہ یہ حماس نے ثابت کر دیا ہے ، جہاں تک جنگ کے بعد غزہ کے حالات کی بات ہے تو بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلسل غزہ پر یلغار کر کے انہیں صحرائے سینا کی طرف لے جائے اور وہاں کیمپوں میں انہیں بسائے اس کے لئے پیسے بھی خلیجی ممالک سے لے یہ منصوبہ بھی ابھی تک فلسطینی عوام کی مزاحمت کی بنا پر ناکام رہا ہے [1]۔

لوگوں نے ٹی وی اسکرین پر اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھے کہ ان سو دنوں میں اپنا سب کچھ کھو دینے والے عارضی جنگ بندی کے بعد محفوظ مقام تلاش کرنے کے بجائے واپس غزہ میں اپنے گھروں کو دیکھنے کے لئے چل دئیے جبکہ گھروں کی جگہ پر ملبوں کے سوا انہیں کچھ نہیں ملا ، اتفاق سے صدی کی ڈیل نامی اس منصوبے کی مخالفت عربی ممالک نے بھی کی جس کے نتیجہ میں اسرائیل وہ کچھ حاصل نہیں کر سکا جو جنگ کے ذریعہ سے حاصل کرنا چاہتا تھا ، دوسرا منصوبہ صہیونی حکومت کے لئے امریکہ کی جانب سے یہ تھا جسکی مخالفت خود نیتن یاہو نے کی یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اس پر عمل ہونے لگے کہ غزہ پر مکمل کنڑول کے بعد اس کی باگ ڈور محمد عباس کے ہاتھوں میں تھما دی جائے اور بعض عربی ممالک کی نظارت رکھی جائے جبکہ پہلے سے ہی یہ منصوبہ قابل عمل نہیں اور اسی لئے اسرائیل کے وزیر اعظم نے بھی اس کی مخالفت کی ہے کہ کیوں کہ محمود و عباس فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینی عوام میں کسی بھی طرح کی مقبولیت حاصل نہیں ہے ۲۰۰۶ میں ہونے والے انتخابات میں محمود عباس کو حماس کی جانب سے بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اسرائیل سے خفیہ رابطوں کی بنا پر فلسطینی عوام اسے عباس محمود کی حکومت کو اسرائیلی مہرے کے طور پر دیکھتے ہیں ۔

اب یہاں پریہی سوال اٹھتا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کا کیا ہوگا حالات بہت ہی خراب ہیں اسرائیل کو جنگ کے ذریعہ جو کچھ حاصل کرنا تھا نہ ہو سکا ایسے میں آگے کیا ہوگا ؟ اسرائیل کی جنونی حکومت تو بار بار پرانی رٹ لگا رہی ہے کہ ہم حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ، ظاہر ہے یہ ایک مشکل کام ہوگا ہاں بڑی تباہی پھیلا کر اسرائیل یہ ضرور چاہتا ہے کہ کچھ ایسا ہو کہ فلسطینی غزہ کو چھوڑ کر نکل جائیں تاکہ غزہ سے اس پر کسی حملے کا امکان نہ بچے

یہ وہ خطرناک منصوبہ ہے جو بغیر مصرو اردن اور بعض اسلامی ممالک کے ملی بھگت سے عملی نہیں ہو سکتا ، خدا کا شکر ہے کہ غزہ میں بہنے والے خون سے اسلامی ممالک کے لئے بہت کچھ واضح کر دیا ہے اب اگر بعض عربی نام نہاد اسلامی حکومتیں اسرائیل کی منشا کے مطابق کچھ کریں گی بھی تو ان ریاستوں کے عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے اور خود ان کے لئے ایک بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا ۔

ایک بڑا انسانی سانحہ اور عالم اسلام کی خاموشی :

جو کچھ اسرائیل حاصل کرنا تھا وہ تو نہیں کر سکا لیکن فلسطین کے جو موجودہ حالات ہے و ہ چیخ چیخ کر آواز دے رہے ہیں کہ یہاں ایک بڑا انسانی سانحہ رونما ہونے والا ہے تو حید کے پرستاروں کہاں ہو ہماری مدد کو آو اس سلسلہ سے بی بی سی کی تقریبا ایک ماہ قبل کی یہ رپورٹ قابل غور ہے : ’’

ایک اندازے کے مطابق اس وقت غزہ کی پٹی کے جنوب کے تقریبا دو تہائی حصے میں 22 لاکھ افراد نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بے گھر اور صدمے کا شکار ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ایک بڑی مصیبت ہے اور ایک بڑے انسانی سانحہ کا خیمہ بن سکتی ہے یہ نقل مکانی کرنے والے کہاں جائیں گے کہاں رہیں گے کیا کھائیں گے پینے کے لئے پانی کہاں سے آئے گا روز مرہ کی ضرورتیں کیسے پوری ہونگی یہ وہ لا ینحل سوالات ہیں جنکا کسی کے پاس جواب نہیں ہے یوں تو المواسی نامی جگہ کے ریتیلے کھیتوں کے درمیان آباد خیموں کو سینکڑوں فلسطینیوں کے لیے آخری سہارا بھی کہا جا رہا ہے۔لیکن خیموں میں بارش کے دوران کیسے رہا جا سکتا ہے وہاں پر بنیادی سہولتوں کے فقدان کی بنا پر بیماریوں اور وبا کے پھیلنے کا ہر وقت خطرہ ہے دوسری طرف یہ سوچنے کی بات ہے کہ بے گھر لوگ کہاں جائیں گے فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (Unrwa) کے مطابق سات اکتوبر سے غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں کے بعد سے غزہ کی پٹی میں تقریباً 17 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر جنوب میں لوگوں کے ہجوم سے گھرے خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ان پر ہجوم خمیوں میں بوڑھوں اور بچوں کی زندگی کتنی محفوظ ہے اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اسے کہاں لے کر جایا جائے گا اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے پہلے ہی اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رکھا ہے جہاں دسیوں ہزار لوگ سکولوں، اسپتالوں اور بعض صورتوں میں خیموں میں کسمپرسی کی حالت میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف موسم سرما کی بارش نے قبل از وقت شروع ہوکر سیلابی صورتحال پیدا کر دی ہے جس سے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ادھر کئی ہفتوں سے اسرائیلی حکام ایک نام نہاد ’محفوظ علاقے‘ کے نام پر ایک ایسے جگہ کی بات کر رہے ہیں جو بحیرہ روم کے ساتھ مصر کی سرحد کے قریب ایک پتلی پٹی نما علاقہ ہے جو زیادہ تر زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔گزشتہ ہفتے خان یونس میں فضائی حملوں کے بارے میں خبردار کرنے والے کتابچے گرائے گئے تھے جن میں لوگوں کو مغرب میں سمندر کی جانب بڑھنے کا کہا گیا تھا۔جمعرات کو سوشل میڈیا پر کی جانے والی ایک پوسٹ میں، آئی ڈی ایف کے ترجمان ایویکے ایدری نے غزا کے شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ المواصی آپ کے پیاروں کی حفاظت کے لیے مناسب حالات فراہم کرے گا۔‘لیکن جنگی حالات کے دوران وہاں 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کا پناہ لینا کتنا حقیقت پسندانہ ہے اور کیا المواصی ان حالات کے لیے تیار ہے؟

اسرائیل کی طرف سے جاری بیان کے مطابق یہ علاقہ چوڑائی میں تقریباً ڈھائی کلومیٹر (1.6 میل) چوڑا ہے جبکہ لمبائی چار کلو میٹر (205 میل) ہے

اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسا مقام جہاں بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی ہے اور کوئی اسپتال تک موجود نہیں وہاں لاکھوں بے گھر لوگوں کو آباد کرنے لیے پناہ گاہ قائم کیسے قائم کی جا سکتی ہے اسکے لیئے خود اقوام متحدہ کتنی تیار ہے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔یاد رہے کہ غزہ کی زیادہ تر آبادی ان پناہ گزینوں سے تعلق رکھتی ہے جو 1948 میں اسرائیل سے بے دخل ہونے کے بعد خیموں میں آباد ہوئے تھے۔

غزہ کی پٹی میں پہلے ہی آٹھ پناہ گزین کیمپ موجود ہیں جو کئی دہائیوں کے دوران گنجان آباد قصبوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور اب اقوام متحدہ کسی اور کیمپ کے قیام کے لیے ذمہ دار نہیں بننا چاہتی‘‘[2]۔ یہ وہ رپورٹ ہے جو تقریبا ایک مہینہ پہلے کی ہے اب تو حالات اور بھی بدتر ہو چلے ہیں ۲۵ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے کتنے ہی ملبوں کے نیچے دبے ہیں کتنے ہی لاپتہ ہے جنکا کوئی نام و نشان نہیں اور مسلسل اسرائیل کے حملے جاری ہیں

مجموعی طور پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے ؟ نہ اقوام متحدہ کے بس میں کچھ ہے نہ ہی انسانی حقوق کی رٹ لگانے والے یورپین ممالک کے ہاتھوں میں کچھ ہے غزہ کی گزشتہ عارضی جنگ بندی کے بعد فلسطین و غزہ کے عوام ایک نئی منزل آزمائش سے گزرنےرہے ہیں ایسے میں ایک بار پھر ذہن میں سوال آتا ہے کہ کوئی اگر ہمارے بارے میں نہیں سوچ رہا ہے تو ہم خود کیوں نہیں سوچتے ؟ آخر ان اسلامی ممالک کے پاس کوئی منصوبہ کیوں نہیں ؟ یہ کب تک خاموش رہیں گے ؟ اگر انکے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ اسرائیل کے حملوں کو روک سکتے کہ ان کا دانہ پانی انکے آقاوں سے بند ہو جاتا تو اب تو عارضی جنگ بندی کے دوران تو اپنے بھائیوں کی اتنی مدد کر ہی سکتے تھے کہ وہ سانس لیں سکیں کہ مزاحمتی محاذ کو جو کرنا تھا اس نے کیا اب باری ان کی ہے کاش یہ عیش و عشرت کی محفلوں میں مشغول ہونے کے بجائے فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور اسرائیل کے خطرناک نسل کشی کے منصوبے کو لگام دیتے ، لیکن یہ تو تب ہوتا جب ان کا ضمیر بیدار ہوتا ؟ انکے مردہ ضمیر نے ہی آج غزہ کو اس حال تک پہنچایا ہے کہ ایک بڑی تباہی غزہ کے مظلوم عوام کے سامنے ہے اور خدا کی مدد کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔


[1] ۔ https://www.farsnews.ir/news/14020907000195

[2] ۔ https://www.bbc.com/urdu/articles/cnep0yev8wyo

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .