حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہر سال لاکھوں بچے جنگ کی وجہ سے یتیم ہو جاتے ہیں، ان کی حالت زار اور چیلنجز کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے 6 جنوری کو جنگی یتیموں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ یتیموں کے لیے ایک خاص دن مقرر کرنے سے نہ تو یتیم ہونے والے بچوں کی تعداد میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ ہی ان کی حالت میں کوئی بہتری آئی ہے۔
اس وقت غزہ معصوم بچوں کا قبرستان بن چکا ہے،لیکن دنیا خاموشی سے فلسطینی بچوں کے قتل عام کو بڑی آسانی سے دیکھ رہی ہے، فلسطین اور لبنان پر ناجائز دہشت گرد اسرائیلی حکومت کے وحشیانہ حملوں کی وجہ سے یتیم ہونے والے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اقوام متحدہ ہر روز یتیموں اور جنگ سے متاثرہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی بات کرتا ہے لیکن اس کو یقینی بنانے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جاتے۔
ذرا سوچئے کہ جنگ کی وجہ سے ایسے ہزاروں لاکھوں بچے نہ صرف اپنا بچپن کھو دیں گے بلکہ انہیں زندہ رہنے کے مشکل چیلنج کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، لیکن اس لیے کہ امریکہ اور کچھ دوسرے مغربی ممالک دہشت گرد اسرائیلی حکومت کی طرح بچوں کو مارنے والی حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں، اس سے یہ توقع رکھنا بے کار ہے کہ وہ دنیا بھر میں بچوں کے بڑھتے ہوئے قتل کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھائے گا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی جنگ ہوتی ہے وہاں امریکہ اور اس کی دم دار حکومتیں ضرور ہوتی ہیں اور وہ اپنے جدید ہتھیاروں کو معصوم بچوں کے خون سے رنگ دیتے ہیں۔
دریں اثناء ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ 7 اکتوبر سے غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں ناجائز دہشت گرد اسرائیلی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں 25 ہزار سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں، یورپی-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں 25000 سے زیادہ بچے جنگ میں اپنے والدین میں سے ایک یا ایک سے زائد کو کھو چکے ہیں، غزہ میں 25 ہزار سے زائد بچوں کے یتیم ہونے کی رپورٹ ایسی حالت میں سامنے آئی ہے کہ غزہ انتظامیہ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دہشت گرد اسرائیلی فوج نے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران 38 بڑے پیمانے پر قتل عام کیے ہیں جس کے نتیجے میں خان یونس صوبہ غزہ میں 350 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
اب تک ریسکیو ٹیمیں اور میڈیکل ٹیمیں درجنوں شہداء تک نہیں پہنچ سکیں جن کی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں کیونکہ دہشت گرد اسرائیلی فوج بھی بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے شہیدوں کے جسد خاکی پر بمباری کر رہی ہے اور انسانیت کو شرمسار کر رہی ہے، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اب دنیا میں انسان نہیں بلکہ مذاہب، ذات پات اور ممالک کے شہری اہم ہیں، مر کر یتیم ہونے والا بچہ اگر کسی اعلیٰ مذہب، ذات سے تعلق رکھتا ہو اور کسی امیر اور مغربی ملک سے تعلق رکھتا ہو تو دنیا کی تمام تنظیمیں اور ادارے اس کے لیے آواز اٹھائیں گے، لیکن اگر تیسری دنیا خصوصاً مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والا کوئی ہو تو سب کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں، جیسے کہ ان کا مرنا اور یتیم ہونا تو ضروری ہی ہے، اس قسم کی ذہنیت نے دنیا کو تباہی کی دہلیز پر پہنچا دیا ہے۔