۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
فلسطین

حوزہ/ صہیونی حکومت ملکی اور بین الاقوامی رائے عامہ کے دباؤ کے باوجود غزہ میں جرائم اور نسل کشی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہلاکتیں مسلسل بڑھتی جارہیں اور انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے ۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | فلسطین و اسرائیل کے ما بین جنگ میں جو انسانیت سوز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ ہر صاحب احساس کو رلا رہے ہیں کوئی دن ایسا نہیں جب معصوم بچوں کی فریادیں زندہ ضمیر لوگوں کے کانوں میں نہ گونجتی ہوں، کوئی دن ایسا نہیں جب بیدار ضمیر لوگوں کی کانوں میں غزہ کے بوڑھوں اور عورتو ں کی چیخیں نہ گونجتی ہوں جو چیخ چیخ کر اپنی مدد کے لئے پکار رہے ہیں لیکن جواب میں محض دھماکوں کی آوازیں ہیں ۔

عارضی جنگ بندی کے بعد سے دوبارہ اسرائیل کے تابا توڑ حملوں کی بنا پر اب تک جنگ جس بھیانک صورت حال کو اختیار کر چکی ہے اسے دیکھ کر ہر پہلو میں دل رکھنے والا انسان آشفتہ و بد حال ہے کہ آخر یہ انسانوں کی بستی میں ہو رہا ہے اور کیسے دنیا تماشائی ہے جس وقت اسرائیل نے غزہ کے تمام علاقوں میں فوجی کارروائیوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا اسی وقت تمام مسلم ریاستیں مل کر کسی ایک فیصلہ پر آتیں اور صہیونی حکومت کو تیل کی سپلائی روکنے کی دھمکی ہی مل کر دیتیں تو بھی بہت سے بے گناہ معصوموں کی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ان تمام تبا ہیوں کے دوران بعض اسلامی ممالک نے صہیونی حکومت کےساتھ تعلقات قائم کرنے کی بات کر کے بتا دیا کہ ان کی نظروں میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے حال ہی میں برطانیہ میں سعودی سفیر خالد بن بندر نے نے واضح طور پر کہا ’’ ان کا ملک غزہ کی جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکرکھتا ہے خالد بن بندر نے بی بی سی کو بتایا کہ سعودی عرب نے امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے سے متعلق مذاکرتی عمل اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد معطل کر دیا تھا۔جبکہہ سعودی عرب غزہ میں ’افسوسناک‘ ہلاکتوں کے اعداد و شمار کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر یقین رکھتا ہے‘‘

مسلم ریاستوں کا نکما پن :

افسوس مسلم ریاستیں خواب خرگوش میں مگن رہیں اور ادھر اسرائیل نے حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا بہانہ بنا کر اپنے زمینی حملوں کو غزہ کے تمام علاقوں میں وسعت دے دی ہے کچھ علاقوں کو پہلے محفوظ بتایا گیا پھر انہیں علاقوں پر بمباری کر کے صہیونی حکومت نے اپنی منشا کو واضح کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ الشفا اسپتال پر حملے کا داغ ابھی دھلا نہیں تھا کہ خان یونس میں بھی اسی طرح کا منظر دیکھنے کو مل رہا ہے پناہ گزیں کیمپوں پر تابا توڑ حملے ہو رہے ہیں جنوبی غزہ کے ایک ہسپتال کا کہنا ہے کہ یہاں لائے جانے والے زخمیوں کی تعداد انتہائی بڑھ چکی ہے فلسطنیوں کے گھروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ایک ایسا خوف فلسطینی باشندوں کے دلوں میں بٹھائے جانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ یہ لوگ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر چلے جائیں چنانچہ عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد جب اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری دوبارہ شروع کی گئی اور نئے حملے ہوئے تو پہلے دن ہی بقول اسرائلی فوج کے حماس کے 400 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا جب کہ عجیب بات یہ ہے کہ حماس کی طاقت میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور اسرائیلی شہروں پر مزاحمتی محاذ کی جانب سے حملے ویسے ہی جاری ہیں جیسے پہلے تھے دنیا اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے اس دعوے پر حیران ہے جس میں حماس کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے ’تمام اہداف حاصل کرنے‘ تک اسرائیلی فوجی آپریشن جاری رکھنے کے عہد کی بات کی گئی تھی ، حماس کے خاتمے کے عہد میں یہ ضرور ہوا ہے کہ عام فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور اسرائیل اپنے خاتمے کی داستان کو مکمل کر رہا ہے ۲۵ ہزارسے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ بچے ہیں ، کوئی بھی جگہ مظلوم فلسطینیوں کے لئے محفوظ نہیں ہے ۔

غزہ پر ہونے والے مظالم اور اقوام متحدہ :

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف سے منسلک جیمز ایلڈر نے بھی غزہ میں عارضی جنگ بندی کے بعد ہونے والی بمباری کو بے لگام اور تباہ کن قرار دیا ہے۔ جو حیوانیت کا ننگا ناچ ہو رہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہو رہا ہے آخر اقوام متحدہ کی کوئی حیثیت ہے یا نہیں یونیسف کا دنیا میں کوئی اعتبار ہے یا نہیں دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی اگر خلاف ورزی ہو اور یونسف یا اقوام متحدہ کا کوئی ذیلی ادارہ یا خود اقوام متحدہ اس کی مذمت کرے تو پوری دنیا اس ملک کے خلاف متحد ہو جاتی ہے جہاں ان کے بقول انسانی حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اب کسی کو نظر نہیں آتا اسرائیل کیا کر رہا ہے ، سب سے زیادہ اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے کسی ملک کی نشاندہی پر جو ملک چیختا چلاتا ہے وہ امریکہ ہے اب اسرائیل میں اسے نہ اقوام متحدہ کی فریادیں نظر آ رہی ہیں نہ اس کے ذیلی ادارے یونیسف سے منسلک افراد کی آہ و فغا ں اسی سے امریکہ کی دوہری پالیسی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ،انسانی حقوق کی تعریف ہی ان کے یہاں الگ ہے ، ان کو انسانی حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اپنے مفادات کو دیکھنا ہے جہاں انک کے مفادات پورے ہو رہے ہوں وہاں کچھ بھی ہو جائے انسانیت تڑپتی رہے انہیں کسی بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ صہیونی حکومت ملکی اور بین الاقوامی رائے عامہ کے دباؤ کے باوجود غزہ میں جرائم اور نسل کشی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہلاکتیں مسلسل بڑھتی جارہیں اور انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے ۔

جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے کیا یہ سوال قائم نہیں ہوتا کہ آخر بچوں اور خواتین و بوڑھوں کا قتل عام ، طبی عملے پر حملے ، یہ کون سے جنگی اصولوں کی پاسداری میں شامل ہیں ؟ اور اگر یہ جنگی اصولوں کی خلاف ورزی ہے تو صہیونی حکومت کے خلاف ہیومن رائٹس سے متعلق تنظیمیں کیوں خاموش ہیں ؟ کیا جو کچھ ہو رہا ہے وہ صہیونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے ایک اجلاس میں اسی اہم پوائنٹ کو اجاگر کر تے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے جو اس جھوٹی دنیا میں ہر سچے سوال کی طرح تشنہ جواب ہے۔

’’کیا عالمی برادری اب بھی غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کو دیکھنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے؟ جب کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے خصوصی نمائندے سمیت دنیا کے بہت سے کارکنوں اور انسانی حقوق کے اہم اداروں نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی نسل پرست حکومت کے اقدامات کو واضح طور پر انسانیت کے خلاف جنگی جرم قرار دیا ہے۔‘‘ ا ب سوال یہ ہے کہ ہیومن رائٹس کی تنظمیوں اور انسانی حقوق کے اہم اداروں کی جانب سے اس بات کو تسلیم کرنے کے بعد کہ غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے اور صہیونی حکومت کی جانب سے اندھا دھند حملے کسی حیثیت سے صحیح نہیں ہیں ، دنیا کے ممالک کیوں خاموش ہیں ؟ اور یہ اگر دنیا کی سپر پاور کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے چپ ہیں تو کلمہ توحید پڑھنے والے کیوں چپ ہیں ؟ یہ لوگ کیوں نہیں بولتے ہم صدا ہو کر کیوں نہیں اٹھتے صہیونی ظلم و ستم کی چکی کیا یوں ہی چلتی رہے گی ؟

یونیسیف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے شائع کردہ اعدادوشمار کا جائزہ اس حقیقت کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت بین الاقوامی سطح پر بچوں کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں پہلے نمبر پر ہے۔

ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ تمام مسلم ریاستیں اسرائیل کی جارح حکومت کو ایک دو ٹوک و واضح پیغام دیں جس میں جنگ بندی اولیں شرط ہو،صہیونی حکومت کے جنگی مجرموں پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے، تمام مسلم حکومتیں مل کر ایک بار ساتھ آ جائیں اور زیادہ کچھ نہ کرتے ہوئے صہیونی حکومت کو فروخت ہونے والے سازو سامان کو روک لیں تیل کی فراہمی کو روک دیں اسرائیلی مصنوعات پر پابندی لگا دیں تو بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے ، مگر افسوس عالمی سامرا ج کے دیو کی چرنوں میں سونے والی یہ نا م نہاد حکومتیں اس خوف سے نہیں بولتیں کہ ان کا آقا ان سے ناراض ہو جائے گا آقا کو راضی کرنے کی قیمت یہ ننہی ننھی جانوں کی اکھڑتی سانسوں کے طور پر دے رہی ہیں ، ملبوں میں چیختے پکارتے بچوں کے طور پر دے رہی ہیں یہ سب انہیں برداشت اس لئے ہے کہ انہوں نے اپنے دین و ایمان کو فروخت کر دیا ہے اپنے ضمیر کو تھپک کر سلا دیا ہے اپنے لئے جہنم کے راستے کو ہموار کر لیا ہے اب انہیں پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے کیاں شیطان کی ڈگڈگی پر حیوانیت ناچ رہی ہے کہاں سامراج کی تال پر بہیمیت اچھل رہی ہے ان کی دنیا رنگیں رہے انہیں بس اسی سے مطلب ہے ۔

اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ہے ظلم کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے یقینا جب اس کی لاٹھی چلے گی تو جہاں ظالموں کو اپنے کئے دھرے کا حساب دینا ہوگا وہیں ان نام نہاد اسلامی حکومتوں کو بھی حساب چکانا پڑے گا وہ دن دور نہیں جب مظلوموں کا لہو ان کے تخت و تاج تک پہنچ جائے گا اور بای ذنب قتلت کے فلک شگاف درد بھرے نعرے ان سے راتوں کی نیند چھین کر انہیں دنیا کے لئے عبرت بنا کر چھوڑ دیں گے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .