تحریر: سکندر علی ناصری
حوزہ نیوز ایجنسی | تحریک حماس نے طوفان آپریشن سے ہر میدان کی جنگ جیتی ہے اس قدر یہ آپریشن دقیق، کامیاب اور فنی تھا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اسرائیل کو اس نے ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس کے حامی ممالک کو بھی لرزایا ہے اس نے سب کے سر چکرا کر رکھ دیے ہیں ان سب کو اب یقین ہوچکا ہے کہ اسرائیل کی نابودی اور سقوط حتمی اور یقینی ہے یہ جو یورپین ممالک کے وزراء اور صدور سات اکتوبر سے ہنگامی طور پر اسرائیل کے دورے پر دورے کر رہے ہیں اسرائیل کو وحشیانہ حملے سے روکنے کے لیے یا امداد رسانی کی خاطر سیز فائر کرنے پر مجبور کرنے کے لیے نہیں بلکہ ناقابل تصور شکست پر تسلی دینے اور اپنی ہمدردی دیکھانے گئے ہیں، ساتھ میں پھر سے اسرائیل کواس کی اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں اور آیندہ ضرورت ہونے پر اپنا تعاون پیش کرنے کی یقین دہانی کرانے کے لیے ہیں۔
اسرائیل کو بھی باخوبی علم ہے کہ یہ اس کی اخری جنگ ہے اس میں کسی طرح سے اس کی مخدوش حثیت سابقہ حالت پر بحال نہیں ہوتی ہے تو آیندہ اسرائیل نام کی کوئی جگہ صفحہ ہستی پر نہیں ہوگی کیوں کہ اس طوفان اقصی سے پہلے اسرائیل اور اس کے حامی ممالک یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ فلسطین کا نام صفحہ ہستی سے پوری طرح محو ہوگا درونی خانہ مسئلہ فلسطین کو رول بیک کر دیا تھا اس نقشہ کے تحت مشرق وسطی کو جدید نقشہ کے ساتھ پیش کیا تھا غزہ کے شہریوں کو اس سازش کے تحت صحراء سینا میں بسانا طے ہو چکا تھا کچھ عرب ممالک کو یہ شاید قبول تھا لیکن مصر کو اسے نقصان تھا اس لیے وہ اس کا مخالف تھا اور غزہ کے شہری اسے اسرائیل کو دینا نہیں چاہتے تھے اس لیے حماس نے اس طوفان اقصی سے فلسطین مخالف تمام منصوبوں پر پانی پھیرایا اور یہ ساری سازشیں ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگئیں اسی بناء پر وہ تمام ممالک جو اب تک اسرائیل کے پشتبانی کرتے رہے ہیں غم و غصہ میں تلملا رہے ہیں اس حوالہ سے امریکہ کی بے تابی اور بےقراری کا اندازہ اسی سے لگاسکتے ہیں کہ وہ کھلم کھلا اسرائیل غاصب کی حمایت کا اعلان کر تا ہے اور یہاں تک بایدن نے کہا کہ اسرائیل اگر فلسطین میں نہیں بنا ہوتا تو ہم آج اسے یہاں بناتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے نام سے صرف ایک یہودی حکومت تشکیل دینا مقصود نہیں تھا اگر صرف یہ مسئلہ ہوتا تو دنیا کی کسی اور جگہ بنانے میں کوئی مشکل نہیں تھی بلکہ اس کو جان بوجھ کر ایک شوپیس کے طور پر استعمال کیا۔
درحقیقت اس کے بیگ گرونڈ میں ایسے اہداف ہیں کہ ان میں دنیا کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہی وجہ ہے روس اور جزائر نے سیز فائر کا مسودہ جب اقوام متحدہ میں پیش کیا تو امریکہ نے اسے مسترد کیا اور امریکہ کی ایماء پر اسرائیل وحشیانہ حملے کے ذریعہ غزہ پٹی کے عوام کا قتل عام کر رہا ہے اور غزہ پٹی فلسطینیوں سے خالی کرانے پر مجبور کیا جا رہا ہے اس وقت اسرائیل اپنی ساکھ کو بچانے کی خاطر، دنیا پر اپنا رعب بیٹھانےکے لیے اندھا دھند حملے پر حملے کیے جا رہے ہیں اسی بنا پر اب تک صرف بے گناہ بچوں عورتوں کو شھید کرنے کے سوا کچھ اس کے ہاتھ نہیں ایاہے، بےگناہ بےچارے عام شھریوں کا قتل کوئی دلیری یا شجاعت نہیں شجاعت اور دلیری وہ ہے کہ جو لڑائی میں اہداف حاصل کریں اب تک اسرائیل اس میں بلکل نا کام ہے حماس نے کئی محازوں پر اپنے کو جتوایا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے حق پرستوں پر واضح کر دیا کہ اسرائیل کا اصلی چہرہ کیا ہے اور اس طرح اس نے اپنی حمایت میں لوگوں کو بیدار کردیا اس وقت مسلمان ممالک کے علاوہ یورپین اور غیر مسلم ممالک کے عوام بھی اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف اٹھے ہیں اور اس کے ان وحشیانہ حملے کی پر زور مذمت کر رہے ہیں ایسا واقعہ تاریخ فلسطین میں پہلی بار پیش آیا ہےپہلا کبھی فلسطین کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ آپریشن نہیں ہوتا تو مسئلہ فلسطین ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہوتا اور اب تک جتنی قربانی فلسطینیوں نے دی تھیں وہ سب کچھ ضائع ہوتیں اور ان شھداء کے ساتھ غداری ہوتی اس آپریشن نے شھداء کے خون کو رائیگان ہونے نہیں دیا۔
تسیری بات یہ ہے کہ اس آپریشن کے زریعے حماس نے اپنی برتری اور اسرائیل کی کمزوری کو دنیا کے سامنے پیش کیا اسی وجہ سے امریکی وزیر دفاع نے صاف کہا کہ یہ صرف اسرائیل کی شکست نہیں بلکہ ہم سب کی شکست ہے چوتھی کامیابی حماس کی یہ ہے کہ انہوں نے اطلاعاعتی بڑے افراد ہی کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا اور انے والے دنوں میں بھی حماس کامیاب ہے کیونکہ اس وقت حماس جو بھی حملے کر رہا ہے ہدف کے ساتھ، حکمت عملی کے تحت کر رہا ہے اندھا دھند حملے حماس کی طرف سے نہیں ہو رہے ہیں جب کہ اسرائیل کے اب تک جتنے حملے ہیں عام شہریوں پر ہو رہے ہیں جسے پتہ چلتا ہے ان کے ہاں کوئی حکمت عملی نہیں صرف عوام میں خوف و ہراس پیداء کرنا ہے ورنہ اب تک ایک حماسی کو مارتا یا پکڑتا اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔
اور اخر میں اسرائیل حماس کی بات کو تسلیم کر کے فلسطین کے اسیروں کا اسرائیلی اسیروں سے تبادلہ ہونگے۔ اس وقت اسرائیل کی پوری طاقت اور زور انہی اسیروں پر مرکوز ہے اگر اسرائیل ان اسیروں کو حماس کے ہاتھوں سے کسی شرط کے بغیر یا کسی خفیہ چھاپے کے زریعے بازیاب کرانے یا چھوڑانے میں کامیاب ہوتا تو ممکن ہے یہ کہے کہ حماس جنگ ہار گی اگر اس میں اسرائیل کامیاب نہیں ہوا تو صرف زمینی کاروائی بچتی ہے لیکن اس میں اسرائیل کی شکست حتمی ہے کیونکہ اس زمینی حملے میں اسرائیلی یا اسیر ہونگے یا مارے جاینگے یہ دونوں صورتیں اسرائیل کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوگئی اسے فوج میں اختلاف پیداء ہونے کے زیادہ مواقع ہیں جس طرح 2006 میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں ایسا ہوا تھا۔ دوسرا ھدف اسرائیل کا حماس کو ختم کرنا ہے یہ بھی اس کی بس کی بات نہیں جب ان جنگجووں کے پاس کچھ نہیں تھا اس وقت پھتر سے لڑتے رہے ہیں تو اب ان کے ہاتھ میں پیش رفتہ اسلحے آچکے ہیں تو وہ کہاں باز آینگے بلکہ غزہ کی کہانی تو دوسروں سے بھی بلکل مختلف ہے اسکندر مقدونیہ نے دوسرے ممالک پر حملے کیے تو دوسرے ممالک اس کا مقابلہ نہیں کر سکے لیکن غزہ کے لوگوں نے نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ دو مہینے تک مزاحمت کی اس کے علاوہ اس جنگ پر ہونے والے خرچے بھی بہت زیادہ ہیں کہا جاتا ہر روز 48 کروڑ ڈالرز اس جنگ پر خرچ ہو رہے ہیں جو اسرائیل کے اقتصاد کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں اور حماس اس جنگ کو جلدی ختم کرنے کی فکر میں نہیں اگر یہ طول پکڑتی ہے تو نہ صرف اسرائیل تھگ جائیگا بلکہ اس کے حواری بھی آہستے آہستے اسے چھوڑ جاینگے ستم بالای ستم یہ ہے کہ مظلوم غزہ کے لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے ہزاروں بےگناہ بچے اسرائیل کے بے رحیمانہ حملوں میں شہید ہورہے ہیں بےگناہ عورتیں وحشیانہ حملوں سے جان دھو بیٹھی ہیں غزہ کی چاروں، جانب خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ان کے لیے کوئی جائے امن نہیں ہے اسکول، ہسپتال، مساجد اور معابد وہ جگہے ہیں کہ جن کا ہر مسلک اور مذھب اور دین کے لوگ احترام کرتے ہیں لیکن اسرائیل نے ان کے احترام اور تقدس کو بھی پامال کر دیا اور مزید اس نے وہاں کے پناہ گزیں بےچارے بچوں عورتوں پر ممنوعہ اسلحوں کا استعمال کیا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق 33 ٹن بارود معصوم بے چارے غزہ کے لوگوں کے سروں پر گرایا ہے اور یہ سلسلہ تھمنے کی کوئی خبر تک نہیں۔
فسفور بموں کی بارش ہے چاروں جانب گولیوں کی برسات ہیں غزہ پٹی اس وقت آگ میں جل رہی ہے بموں، گولوں اور اسلحوں سے غزہ لرز رہی ہے وہ دنیا کو مدد کے لیے پکار رہی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے وہاں انسانیت کی دم گھٹ رہی ہے اقدار کے قتل ہو رہے ہیں ماں کی آغوش میں اس کی ممتا لٹ رہی ہے ان مظالم اور بربریت کے خلاف اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل نے تنقید کی تو اسرائیل کا وزیر خارجہ اسے"دوسری دنیا میں رکھتاہے" کہکر توہین کرتاہے لیکن اس کے سامنے اقوام متحدہ بھی بےبس نظر آتی ہے لاکھ سے زیادہ مائیں ایسی ہیں کہ جن کی شکم میں بچے ہیں ان میں سے بھی اکثر مائیں فلسطین کی آزادی کے لیے غزہ چھوڑنے پر راضی نہیں تھیں اسی وجہ سے یہ مائیں بھی ہمیشہ کے لیے فلسطیں میں سوئی ہیں ایمان رکھیں بے گناہ معصوم بچوں کے خون اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے لے دوبےگا اور یہ جنگ اسرائیل کی تباہی کی جنگ ہوگی وہ ضرور نابود ہوگا۔