تحریر: بنت فلسطین
حوزه نیوز ایجنسی| کچھ دنوں سے میرا دل بہت بے قرار، بے سکون تھا اور کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا جب سے فلسطینی مسلمانوں کی موجودہ صورتحال اور اسرائیل کی بربریت کی خبرین سن اور دیکھ رہی تھی دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور کیوں نہ روتا؟
دنیا تاریخ کے بڑے ظلم و بربریت کا مشاہدہ کررہی تھی، معصوم بچوں کی سسکیاں، گرد اور خون آلود زخمی، شہید بچوں کے چھتڑوں پر مشتمل ناقابلِ شناخت جسم، ماؤں کی دردناک آہ و بکاء، گھر کے سرپرست کا پورے گھرانے یا اکثر افراد کی شہادت پر سر و سینہ پیٹنا، پوری پوری عمارتوں کا رہائش پذیر انسانوں سمیت زمین بوس ہوجانا، پانی، بجلی، دوائیوں، غذائی اجناس کی بندش کس انسان کو غم زدہ اور پریشان نہیں کرے گی۔
میری اپنی کیفیت یہ تھی کہ کبھی دعا کی کتاب اٹھاتی، کبھی تسبیح پڑھتی، کبھی مصلی پر جاتی، اور کبھی اضطراب میں بے وجہ چہل قدمی شروع کردیتی، دل جو پریشان تھا اور اس کا اظہار سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیسے کیا جائے اور کیسے ان واقعات سے باخبر ہوکر پرسکون رہا جائے، میں سوچ رہی تھی کہ ان مسلمانوں کے لیئے کیا کر سکتی ہوں؟ کیسے کرسکتی ہوں؟
ایسے موقع پر مولائے متقیان علی ابن ابی طالب کی امام حسن و حسین علیھما السلام کو کی گئی وصیت میرے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی:
«وَ كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً» ظالم کے دشمن رہنا اور مظلوم کے مددگار!
بار بار ذہن میں یہ وصیت تکرار ہورہی تھی!!
پھر کسی عالم کی زبان سے یہ سنا بھی تھا کہ "امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورے جسم میں تکلیف ہو تی ہے" یہ پیغام سن کر میرے جذبات میں اور طلاطم پیدا ہوا اور فکر پرواز نے یہ پیغام دیا کہ یہ کیسے ہوتا ہے کہ فلسطین مظلوم عوام کے اس دکھ کو کوئی مسلمان محسوس نہ کرے؟ میرے کرب میں اور اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
دن بھر کی مصروفیات اور وظائف سے عہدہ برآں ہو کر جب آرام کے لئے بستر نصیب ہوا تو وہی دن بھر کے مناظر آنکھوں کے سامنے آنے لگیں دھیان بٹانے کے لئے موبائل اٹھایا تو وہاں کی تصاویر اور ویڈیوز مظلومین فلسطین پہ ظلم و بربریت کی زندہ واقعات رقم تھے.....
دل نے بے تاپ ہوکر اپنے وقت کے امام کو پکارا " اے امام(ع) اب تو آجائیں دنیا ظلم و جور سے پر ہوچکی ہے، امام (ع) اب تو آجائیں مظلوموں سے یہ ظلم برداشت نہیں ہو رہا وہ بے تاب ہوکر دنیا کے نام نہاد مسلمانوں سے مدد طلب کررہے ہیں کاش ہم اپنے ان اہل سنت بھائیوں کو مہدویت کا یہ پیغام پہنچادیتے کہ خدا نے عدل و انصاف کے لئے اپنی آخری حجت کو اٹھا رکھا ہے امید کا ہاتھ سے نہیں جانے دینا اور زبان پر ظہور حجت کی دعا جاری رکھنا ہے، لیکن ہم اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے انسانون کو نجات کا یہ راستہ نہیں دکھایا.....
میں جب یہ تصویریں اور ویڈیوز دیکھ رہی تھی تو کربلا کے سنے ہوئے مصائب اور واقعات میری آنکھوں کے سامنے آرہے تھے۔ دل غمگین، آنسوؤں سے لڑیاں جاری اور زبان پر دعائیں تھیں: اے اللہ بطفیل اھل بیت علیھم السلام ان مظلوم کو قرار عطا فرما، بے چین ماؤں کو قرار، زخمی بچوں کو آرام، باپ کو یہ تمام غم برداشت کرنے کی قوت عطا فرما، ظالم، وحشی، صہیونیت کو نیست ونابود فرما، ان کے مکروہ عزائم کو خود انکی طرف پلٹا دے ..... معلوم نہیں کس پہر میری دعا مانگتے مانگتے آنکھ لگ گئی.......
رات کے کسی پہر میری آنکھ کھلی دل زور سے دھک دھک کر رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ کسی خواب سے بیدار ہوئی ہوں، ابھی تک میرے کانوں میں بچوں اور عورتوں کی دکھ بھری آوازیں آرہی تھیں..... میری عجیب حالت تھی ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی روحانی شخصیت مجھے یہ پیغام دے رہی ہے اے بنت فلسطین اٹھ کھڑی ہو، مدد کرو مظلوموں کو تمہاری عملی مدد کی ضرورت ہے....
ارے یہ تو جمعہ کی صبح ہے، میرے امام (عج) سے منسوب دن، وعدہ ظہور کا دن، دعائے ندبہ ظہور کے لئے گڑگڑانہ کا ذریعہ، مومن کے لئے بے قراری سے اپنے امام (عج) کے لئے تڑپنے کا دن..... یقینا قلب نازنین امام (عج) اس ظلم و بربریت پر بے قرار ہے اور مجھے پیغام دیا جارہا ہے کہ اٹھو اے مومنہ مظلومین کی نصرت کے لئے جو کچھ کرسکتی ہو وہ کرو .... مظلوم کے لئے صرف دل کا تڑپنا، آنکھوں سے آنسؤں کا جاری ہونا، ہاتھوں کو دعا کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ انکو اپنے دفاع کے لئے، زندگی گزارنے کے لئے ہر ممکن مدد کی ضرورت ہے....
للمظلوم عونا کا کیا مطلب ہے؟ یعنی انکی ہر ممکن مدد کرنا، لیکن میں کیا کر سکتی ہو میرے پاس تو کچھ بھی نہیں میری کوئی آمدنی نہیں ہے میں تو خود محتاج ہوں، میں کیسے مدد کروں؟
خیال آیا ایک قیمتی شئ ہے میرے پاس عقیق کی انگوٹھی....
شیطانی وسوسہ اور توجیہ نہیں، نہیں وہ تو مؤمن کی علامت ہے اسے پہن کر تو نماز پڑھنا بھی ثواب ہے، وہ تو میرا واحد قیمتی سرمایہ ہے......دل و دماغ کی کشمش شروع ہوگئی دل ہار گیا دماغ جیت گیا اور دماغ نے فیصلہ سنایا اس وقت اس قیمتی انگوٹھی کی مجھے نہیں ان مظلوموں کو ضرورت ہے، اس انفاق کے فیصلے سے گویا ذھنی سکون محسوس ہوا کل ہی اس کو فروخت کر کے آیت اللہ خامنہ ای کے دفتر میں بھیج دوں گی، ان سے معتبر ذریعہ بھی تو نہیں جو فلسطینیوں کی مدد کررہا ہو۔
واقعاً خدا جس کو چاہتا ہے اپنے نور سے ہدایت عطا فرماتا ہے۔۔۔۔۔رسول خدا (ص) کا وہ واقعہ میری سماعتوں سے ٹکرانے لگا جس میں آپ نے ایک شخص کی وصیت کے مطابق اس کا تمام مال اس کے مرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے صدقہ کر نے کے بعد ایک باقی رہ جانے والی کھجور کی طرف اشارہ کر کہ فرمایا تھا کہ اگر اپنی زندگی میں اپنے ہاتھ سے صرف یہ ایک کھجور صدقہ کرتا تو اس تمام عمل سے بہتر تھا.........
میں نے انفاق کے اس راستے کو، فلسطینیوں کی مدد کے وظیفے کو اب اور مسلمانوں تک پہنچانا ہے صرف مال دینا ہی کافی نہیں لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا بھی انفاق کے برابر اور مجھ غریب کے لئے یہ بہترین فرصت ہے لوگوں کو راغب کرکے انفاق میں شامل ہوجاؤں۔
صبح اٹھتے ہی اہم کاموں سے قطع نظر جیولر کا رخ کیا تاکہ اپنی سونے کی عقیق کی انگوٹھی فروخت کرکے عملی مدد کا آغاز کروں؛
گرچہ یہ کوئی بڑی مدد تو نہیں تھی، لیکن دل نے یقین دلایا کہ فرعون کی آگ کو بجھانے کے لئے پانی کا قطرہ بھی خدا کے نزدیک قبول ہوتا ہے۔
سکون کے ساتھ نیا مشن شروع کرنے کا عظم پیدا ہوچکا تھا اپنے اردگرد لوگوں کو مظلوموں کی مدد کے لئے تیار کرنا!! اپنے وظیفے کو ادا کرنا اور پھر دعا کے لئے ہاتھ بلند کرنا، اللھم عجل لولیک الفرج!!