۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
بنت فلسطین

حوزہ/ ہم سب اگر اپنی اجتماعی ذمے داریاں انجام دیں تو مظلوموں کا دکھ اچھی طرح سے باٹ سکتے ہیں اور اپنے وقت کے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو بھی ہوسکتے ہیں، ظالم کا خاتمہ ہی تو ظہور کا زمینہ فراہم کریگا۔

تحریر: بنت فلسطین

حوزہ نیوز ایجنسی | اسکول کی گھنٹی زور زور سے بج رہی تھی اور میری نظریں استاد پہ جمی ہوئی تھی جو کلاس سے جانے کی تیاری کر رہی تھی۔

آج کا موضوع حقیقی کامیابی کے پیچھے مادی اور معنوی وسائل مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر رہا تھا، ایک استاد کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ شاگردوں کے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر شعور کی راہیں دکھاتا ہے...... کیونکہ آجکل ہر دردمند انسان کی فکر میں مظلوموں کا موضوع سرفہرست ہے لہذا استاد کی باتیں سن کر میری پرواز فکر نے مجھے فلسطین پہنچادیا آنکھوں کے سامنے مناظر گزرنے لگے، ہر طرف خاک و خون ،ملبے سے اٹھتا دھواں ،،بے یا رو مددگار تنہا بچے ،کہیں مرد، کہیں عورتیں ان کی نظریں گویا کچھ ڈھونڈ رہی ہوں، غم سے نڈھال دل لیکن ارادے مضبوط اور مستحکم.......

انھوں نے ھادیان برحق کی سنت پر چلتے ہوئے ظالم کے مقابل توحید کا پرچم بلند کر دیا اور علم توحید لئے ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں......بچوں، بڑوں کی زبان پر کلمہ توحید لاالہ اللہ سب سن رہے ہیں، لہذا کوئی اسے صرف زمین کی محبت نہ سمجھے یہ مقدس زمین کی محبت ہے اسی لئے مقدس کلمات ہر فلسطینی کی زبان پر جاری نظر آتے ہیں، جذبہ جہاد اسی لئے خاموش نہیں ہوتا کہ یہ جہاد کفر و اسلام کی جنگ ہے مادی وسائل لٹنے کی نہیں، میں نے سوچا وہ تو ان سخت حالات میں بھی اپنے ایمان کو ثابت کررہے ہیں لیکن میں؟ میں کہاں کھڑی ہوں؟

میں نے کیا کیا؟ وہی روزانہ کی روٹین، کھانا پینے کا اہتمام، صرف تھوڑا سا افسوس کیا یہ کافی ہے؟ میں جو ہر سال جمعۃ الوداع کے موقع پر فلسطین کی حما یت میں منعقد ہونے والی ریلی میں بڑے جوش و خروش سے شرکت کرتی تھی، جب عملی مدد کا وقت آیا تو اس وقت میرے رویہ میں کیا تبدیلی آئی میں نے جو مظلوم کی حمایت اور رھبر کی اطاعت کے بڑے بڑے دعوے کیئے تھے، مقام عمل میں کتنی سچی ہوں؟۔۔۔۔۔۔

ہر سال فلسطین سے محبت کی دعوےدار تو میں تھی تو مجھے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا........میں نے کیا عملی کردا ادا کیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے خبر بھی نہ ہوئی میں کس وقت انہی سوچوں میں گم لنچ بکس لئے کلاس سے باہر آگئی۔۔۔۔۔۔ سوچ تسلسل کے ساتھ مجھے مضطرب کررہی تھی، نہیں نہیں مجھے بھی کچھ کرنا ہے، کیا قیامت میں مجھ سے سوال نہیں ہو گا؟ امت مسلمان خاک و خون میں غلطاں تھی تم نے کیا کیا ؟

مجھے اپنی ذات سے بڑھ کر اپنے عزیز و اقارب سے بات کرنا چاہئے انہیں موٹیویٹ کرنا چاہئے میں اسٹوڈنٹ ہو میرے پاس مادی اور دیگر وسائل کم ہیں تو کیا ہوا میں اپنے ماں،باپ، چچا، ماموں سے تو بات کرسکتی ہوں، وہ اپنے اخراجات میں مظلوموں کی حمایت کو سرفہرست قرار دے سکتے ہیں، وہ دوسروں تک مظلوموں کی آواز پہنچاسکتے ہیں، وہ ظالم کے چہرے سے نقاب اٹھانا ہوگی..... ارے ہاں میں ماموں سے کہونگی تمام خوشیوں کی تقریبات پر خرچ ہونے والی رقم کو مظلومیں تک ارسال کردیں..... گرمیوں کی چھٹیوں میں جو ہم نے سیرو تفریح کا پروگرام بنایا ہے وہ بھی تو کینسل ہوسکتا ہے اور وہ رقم بھی تو معصوم فلسطینیوں کی مدد کے لئے بھیج سکتے ہیں ......

گھر پہنچنے تک یہی سب سوچتی رہی، گھر پہنچتے ہی میں نے فیملی گروپ پر اپنی سوچ کو سب کے ساتھ شیئر کیا.... اکثر نے اتفاق کیا کچھ کے ذھن میں شکوک و شبہات تھے، ولایت میڈیا پر علماء فلسطین سے متعلق شکوک و شبہات کے جواب دے رہے تھے اور میں مسلسل ان پروگرامز کو دیکھ رہی تھی انکی مدد سے میں نے با آسانی سب کو کنونس کرلیا ؟ ........ دادا اور دادی اور نانا نانی کو جب پتہ چلا تو وہ کیسے پیچھے رہ سکتی تھیں انہی کی تربیت سے تو ہم یہاں تک پہنچے تھے، انہوں نے پیش قدمی کا مظاہرہ کیا اپنے قیمتی جیولری میں سے کچھ زیور، دادا اور نانا نے اپنی نایاب گھڑی اور کچھ اینٹیک ڈیکوریشن پیسز ہمارے حوالے کر دیں دیکھتے ہی دیکھتے سب نے اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا، قطرہ قطرہ ہی تو دریا ہوتا ہے، ہم نے طے کیا تھا کسی کا معمولی سا ڈونیشن بھی منع نہیں کرینگے.......... یوں رشتہ داروں سے دوست و احباب اور آس پڑوس تک جیسے جیسے پیغام پہنچ رہا تھا میرا حوصلہ بھی بڑھ رہا تھا۔

بات ہوئی کہ ایسا کیا کریں کہ یقین ہوجائے یہ امداد مستحقین تک پہنچ جائے ایک عالم نے راھنمائی کی اس وقت رھبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے دفتر کے ذریعے مظلومین کو مدد بھجوائی جارہی ہے اور اس سے مطمئن سورس ہوہی نہیں سکتی، سچ کہا کسی نے اپنی ذات میں محدود رہ کر اجتمائی جدوجہد ممکن نہیں ہے بلکہ "ھمت مرداں مدد خدا ہوتی ہے" میں نے اپنے دل کی باتیں آپ سب سے اس لئے شیئر کیں کہ ہم سب اگر اپنی اجتماعی ذمے داریاں انجام دیں تو مظلوموں کا دکھ اچھی طرح سے باٹ سکتے ہیں اور اپنے وقت کے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو بھی ہوسکتے ہیں، ظالم کا خاتمہ ہی تو ظہور کا زمینہ فراہم کریگا تو پھر دیر کس بات کی ہے آپ بھی بسم اللہ کیجئے.....

تبصرہ ارسال

You are replying to: .