۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
News ID: 394700
23 نومبر 2023 - 16:04
بنت فلسطین

حوزه/ ہمارے معاشرے میں جب  کسی پر کوئی مشکل آتی ہے، کسی کا کوئی پیارا چلا جاتا ہے یا کوئی بڑا نقصان ہو جاتا ہے اور وہ آواز بلند کرتا ہے تو اسے صبر کی تلقین کی جاتی ہے، یعنی اسے خاموش رہنے کی اور ضبط کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔

تحریر: بنت فلسطین

حوزہ نیوز ایجنسی| ہمارے معاشرے میں جب کسی پر کوئی مشکل آتی ہے، کسی کا کوئی پیارا چلا جاتا ہے یا کوئی بڑا نقصان ہو جاتا ہے اور وہ آواز بلند کرتا ہے تو اسے صبر کی تلقین کی جاتی ہے، یعنی اسے خاموش رہنے کی اور ضبط کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔
رہبر معظم سید علی خامنہ ای مدظلہ صبر کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: صبر کا مطلب، کھڑے ہونا مزاحمت کرنا، دشمن کا تدبیر اور تدبر کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور استقامت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق، اس طرح صبر کا مظاہرہ کرنے والوں کو ضرور فتح نصیب ہو گی۔

قرآن حکیم میں خداوند متعال فرماتا ہے: ان اللہ مع الصابرین. خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ بےشک جو ظالموں کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں استقامت اور استحکام کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں اور ظالم کے ظلم پہ مزاحمت کرتے ہیں یہی لوگ صابر ہیں اور بے شک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یہی صبر کی صحیح تفسیر ہے، نہ کہ جو غلط تفسیر ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو تعریف صبر کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ خاموشی اختیار کریں، برداشت کریں اور کوئی حرکت نہ کریں۔

واقعۂ کربلا صبرو استقامت کی بہترین مثال ہے کہ جس میں سید الشہداء علیہ السّلام اور آپ کے باوفا اصحاب نے ظالم کے مقابلے میں، گھر بار لٹ جانے کے باوجود، اولاد و عزیز و اقارب کی شہادتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی اور اپنے مؤقف سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے اور قیامت تک ظالم کے مقابلے میں ظلم پر صبر کرنا اور استقامت دکھانے کی مثال قائم کی۔ امام حسین علیہ السّلام کا یہ فرمان کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا، قیام قیامت تک ظالم اور ظلم کے ایوانوں کو جھنجھوڑتا رہے گا اور مظلوموں کو صبر، یعنی مزاحمت، حرکت اور استحکام کی دعوت دیتا رہے گا۔

آج مظلومین فلسطین بھی سیرت سید الشہداء علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے مزاحمت اور استحکام کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس صبر کے معجزات اب دنیا دیکھ رہی ہے پوری دنیا کے انسانوں کا ظالم کو للکارنا اور مظلومین فلسطین کا ساتھ دینا کسی معجزے سے کم نہیں، اتنے بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں ایسے مظاہرے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔

غاصب اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو یا سوشل میڈیا پر غاصب اسرائیل کے جھوٹے پروپگنڈے کے ڈھیر ہونے کا معاملہ، دنیا نے مظلومین کو ہمیشہ روتے، پستے اور ظلم سہتے ہی دیکھا تھا، لیکن آج فلسطین کے مظلوم عوام نے صبر و استقامت کی وہ مثال پیش کی، جس نے فرعونوں کے محلات کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
12000 سے زیادہ جام شہادت نوش کر کے جانے والے فلسطینی جن میں 5000 سے زیادہ معصوم بچے ہیں، جن کے گھر کھنڈرات بن گئے، لیکن کوئی اپنے بچوں کی شہادت پر مٹھائی تقسیم کرتا نظر آرہا ہے تو کوئی گھر کے ملبے پہ قرآن کی تلاوت کرتا نظر آرہا ہے، کوئی سجدہ شکر بجا لاتا نظر آرہا ہے، دنیا آج صبر کرنے والوں کے ساتھ خدا کے ہونے کا خود مشاہدہ کر رہی ہے دشمن کی فوج اقرار کرتی نظر آ رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا کے خوبصورت کلمات ”ما رایت آلا جمیلا “ کے مصداق مظلوم فلسطینی، صبر کی خوبصورتی کو محسوس کر رہے ہیں۔ واقعتا جب انسان صبر و استقامت کے ساتھ ظالم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے تو خدا ان کے ساتھ ہو جاتا ہے اور جب خدا کسی کے ساتھ ہو تو انسان خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔یہی وجہ ہے کہ مظلومین فلسطین ان تمام مظالم کے باوجود، صبر کے ساتھ اپنی سرزمین پر بیٹھے ہیں اور کسی ایک فلسطینی نے بھی فلسطین سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی اور جو ظالم ہیں اور جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں وہ مقبوضہ فلسطین سے فرار ہونے کے لئے لائن میں کھڑے ہیں، یہ وہ معجزات ہیں جنہیں دنیا آج خود مشاہدہ کر رہی ہے۔

خدا فلسطینیوں کو مزید استحکام عطا کرے اور ان ہزاروں بچوں کی شہادتوں کے بعد موسیٰ زمان، امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل عطا فرمائے!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .