۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
بنت فلسطین

حوزه/ قدیم زمانے میں ہونے والی جنگیں دو ملکوں یا دو علاقوں کے درمیاں ایک محاذ پہ لڑی جاتی تھیں اور کچھ عرصے جاری رہنے کے بعد بلاآخر اختتام پذیر ہو جاتی تھیں جس میں ایک فریق شکست خوردہ جبکہ دوسرا فاتح قرار پاتا تھا۔

تحریر: بنت فلسطین

حوزه نیوز ایجنسی| قدیم زمانے میں ہونے والی جنگیں دو ملکوں یا دو علاقوں کے درمیاں ایک محاذ پہ لڑی جاتی تھیں اور کچھ عرصے جاری رہنے کے بعد بلاآخر اختتام پذیر ہو جاتی تھیں جس میں ایک فریق شکست خوردہ جبکہ دوسرا فاتح قرار پاتا تھا، جنگ میں ہمیشہ ایک فریق حق پر ہوتا ہے جبکہ دوسرا باطل پر اور ایک فریق ظالم ہوتا ہے تو دوسرا مظلوم ہوتا ہے۔

دور حاضر میں لڑی جانے والی جنگیں فقط ایک محاذ پر نہیں ہوتیں، بلکہ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں۔

انسان اور پھر مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا دینی فریضہ ہمیں پہلے ظالم سے دشمنی اور پھر مظلوم کی مدد کا حکم دیتا ہے۔

آج کی دنیا میں ہونے والی جنگیں سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا کے سامنے آشکار ہیں ظالم کی سفاکیت اور جنگی جرائم سے لے کر مظلوم کی سسکیاں اور آہیں دنیا کے سامنے عیاں ہوجاتی ہین لیکن یہ جنگی محاذ فقط ایک علاقے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ان فریقین کو کئی محاذ درپیش ہوتے ہیں اور ایک جنگ کئی محازوں سے لڑی جا تی ہے۔جانباز سپاہی تو ایک علاقے میں برسر پیکار ہوتے ہیں لیکن آج کے دور میں دشمن کو شکت دینے کے لئے کئی محاذ جن میں معاشی محاذ، اقتصادی محاذ، نفسیاتی محاذ،مذاکراتی محاز اور آج کل کے دور میں سوشل میڈیا محاذ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

دور حاضر کا ایک عظیم الشان معرکہ جو مقبوضہ فلسطین میں قابض صہیونی حکومت کے بہیمانہ اور سفاکانہ مظالم کے خلاف مظلوم فلسطینیوں نے شروع کیا ہے یہ جنگ defencing mood میں ہے جو مظلوم فلسطینی اپنی سرزمین میں قابض صہیونیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینے کے لئے دشمن کو تمام محاذوں پہ شکست دینے کی ضرورت ہے جس کے لئے ایک انسان کو دقیق نظر ہونے کے ساتھ ساتھ با بصیرت ہونا بہت ضروری ہے، اس جنگ کے اقتصادی محاذ میں آجکل ہو نے والے Israeli products Boycott کے ذریعے اسرائیل شدید اقتصادی دھچکے سے دوچار ہے۔انشاءاللہ ان مصنوعات کے ممستقل بائیکاٹ سے عنقریب bankruptcy کا شکار ہو جائے گا اور اقتصادی محاذ پہ ملنے والی یہ کامیابی دنیا کے با ضمیر انسانوں کے سر ہے جنھوں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کہ اُنھیں اقتصادی طور پر کمزور کیا ہے۔

دنیا بھر میں ہونے والے street protest نے دنیا کا، ان کے خلاف ہونا ظاہر کر دیا ہے اور یہ چاہتے ہوئے بھی ان عالمی مظاہروں کو روکنے میں ناکام ہیں اور دن بدن ان بڑھتے ہوئے مظاہروں نے خود ان کی صفوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ خود شدید depression کا شکار ہو کر نفسیاتی محاذ پر بھی شدید ناکامی کا شکار ہیں۔

فلسطین کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال نے صہیونیوں کے مہنگے ترین جدید اسلحوں کی تباہی و بربادی اُنھیں معاشی بدحالی کا شکار کر رہی ہے اور معاشی محاذ پر بھی شکست خوردہ اسرائیلی، شیطان بزرگ کے آگے ہاتھ پھیلائے مدد کی اپیلیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر تو پہلے ہی یہ شکست سے آلودہ ہیں اور ان کی قابل انٹیلیجنس اور منصوبہ بندیوں کے جھوٹے پروپگنڈے ڈھیر ہو چکے ہیں ان تمام محاذوں میں سب سے اہم محاذ، معنوی محاذ ہے جس میں فلسطینیوں کی %100 کامہابی ہے اتنی شہادتوں اور تباہ کاریوں کے با وجود مایوسی و نا امیدی کا ایک جملہ سنائی نہیں دیا یہ محاذ وہ عظیم محاذ ہے جس نے فلسطینیوں کو ثابت قدم رکھا جس نے شہید ہونا تو گوارا کیا لیکن جھکنا گوارا نہیں کیا فلسطینی سر بلند و پروقار ہیں ان کے قلوب مطمئن ہیں اور یقیناً اس معنوی محاذ میں عالم انسانیت کے بیدار، با ضمیر اور ژندہ دل انسانوں کی پر خلوص دعائیں شامل ہیں۔۔۔اس معنوی محاذ سے دشمن محروم ہے اور مکمل شکست خوردہ ہے۔۔۔

اب ہماری ذمے داری ہے کہ ان تمام محاذوں بہ یعنی اقتصادی محاذ، معاشی محاذ۔ نفسیاتی محاذ ، سوشل میڈیا محاذ اور بالخصوص معنوی محاذ پہ اپنی جدو جہد جاری رکھیں اور اسے مانند نہ پڑنے دیں با بصیرت لوگوں سے رابطے میں رہیں، تاکہ دشمن کے پھیلائے ہوئے کسی پروپگنڈے یا کسی چال کا شکار نہ ہوں۔

خدا مظلومین فلسطین کی ہمت ،طاقت اور حوصلے کو مزید دوام بخشنے اور اس جنگ کا اختتام *صہیونیت کی نابودی پر ہو، کیونکہ جنگ ابھی جاری ہے دشمن پہ لرزہ طاری ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .