۴ آبان ۱۴۰۳ |۲۱ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 25, 2024
شہید یحییٰ سنوار

حوزہ/ یہ وصیت شہید یحییٰ السنوار کے عزم، استقامت اور آزادی کے خواب کا آئینہ دار ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے بچپن، جلاوطنی، جیل کے تلخ تجربات، اور فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی جدوجہد کا ذکر کیا ہے۔ یہ پیغام صرف ہتھیار اٹھانے کی نہیں، بلکہ عزت، وقار اور فلسطین کے لیے غیر متزلزل عزم کے ساتھ زندگی گزارنے کی دعوت ہے۔ انہوں نے قوم کو نصیحت کی کہ مزاحمت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، شہیدوں کی قربانیوں کو یاد رکھیں، اور دنیا سے انصاف کی امید کے بجائے خود اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | میں یحییٰ ہوں، پناہ گزیں کا بیٹا، جس نے اجنبیت کو ایک عارضی وطن بنایا اور خواب کو ایک ابدی معرکہ میں بدل دیا۔ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں، اور اس وقت میری زندگی کا ہر لمحہ میری نگاہوں کے سامنے ہے—گلیوں میں گزرا بچپن، جیل کے طویل سال، اور وہ ہر قطرۂ خون جو اس مقدس زمین کی مٹی پر بہایا گیا۔

میں 1962 میں خان یونس کے کیمپ میں پیدا ہوا، جب فلسطین ایک یادگار بن چکا تھا، نقشوں اور دستاویزات میں سمٹا ہوا، سیاست دانوں کی میزوں پر بکھرا ہوا، بھولے بھٹکے خواب کی مانند۔ لیکن میں نے کمسنی میں ہی یہ سیکھ لیا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی محض سانسیں لینے کا نام نہیں ہے۔ یہاں جو بھی پیدا ہوگا، اسے دل کے اندر ناقابلِ شکست ہتھیار لے کر جینا ہوگا، اور یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی کا راستہ کٹھن اور طویل ہے۔

میں وہ ہوں جس نے اپنی زندگی آگ اور راکھ کے بیچ گزاری اور بہت پہلے یہ جان لیا کہ غاصبوں کے سائے میں رہنے کا مطلب ایک ہمیشہ کی قید ہے۔ اس لیے میری زندگی جیل اور جنگ، تکلیف اور امید کے بیچ بسر ہوئی۔ میں نے سب سے پہلے 1988 میں جیل کی صعوبتیں جھیلیں اور عمر قید کی سزا پائی، لیکن میں نے اپنے اندر خوف کو کبھی جگہ نہ دی۔ ان تاریک کوٹھریوں میں، جہاں ہر دیوار میں ایک کھڑکی نظر آتی تھی، جو دور افق کی جھلک دکھاتی، اور ہر سلاخ سے روشنی پھوٹتی تھی، جو آزادی کی راہ کو منور کرتی تھی، میں نے یہ سیکھا کہ صبر محض ایک خوبی نہیں، بلکہ ایک ہتھیار ہے—کڑوا ہتھیار، جیسے کوئی قطرہ قطرہ سمندر کو پی لے۔

جیل میں رہ کر میں نے یہ سیکھا کہ آزادی محض ایک حق نہیں جسے چھینا جا سکتا ہے، بلکہ یہ ایک آئیڈیا ہے جو تکلیف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور صبر سے اس کی دھار تیز کی جاتی ہے۔ جب 2011 میں ’احرار کی وفاداری‘ کے تحت رہائی ملی، تو میں پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ میری شخصیت مضبوط ہو چکی تھی اور میرا یقین پختہ ہو چکا تھا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ وقتی کشمکش نہیں، بلکہ ہماری قسمت ہے، جس کی لاج ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک رکھیں گے۔

میری تمہیں وصیت ہے کہ اپنے ہتھیار کبھی نہ چھوڑنا، اپنے خوابوں کا سودا نہ کرنا، اور اپنی زمین سے ایسے چمٹے رہنا جیسے جڑیں مٹی سے جڑی رہتی ہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم مزاحمت چھوڑ دیں، اپنے حق کے لیے مذاکرات کی میزوں پر جھک جائیں، لیکن میں تم سے کہتا ہوں: اپنے حق پر سمجھوتہ نہ کرنا۔ ہماری استقامت ہمارے ہتھیاروں سے زیادہ خوفناک ہے۔ مزاحمت محض ہتھیار اٹھانے کا نام نہیں، یہ فلسطین کے لیے ہماری محبت ہے، جو ہر سانس کے ساتھ تازہ ہوتی ہے، اور ہماری اس ارادے کا عزم ہے کہ ہم باقی رہیں گے، چاہے حصار اور ظلم ہمیں کتنا بھی جھکانے کی کوشش کریں۔

جب میں نے 2017 میں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالی، تو یہ قیادت کی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ مزاحمت کا تسلسل تھا، جو پتھر سے شروع ہوا تھا اور بندوق سے جاری رہا۔ حصار میں گھری میری قوم کا درد مجھے ہر روز بے چین کرتا تھا، اور میں جانتا تھا کہ آزادی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم قیمت مانگتا ہے، لیکن ہار ماننے کی قیمت اس سے کہیں بڑی ہوگی۔

طوفانِ اقصیٰ کی جنگ میں، میں کوئی جماعت یا تحریک کا قائد نہیں تھا، بلکہ ہر اُس فلسطینی کی آواز تھا جو دل میں آزادی کا خواب لیے جی رہا ہے۔ مزاحمت محض ایک اختیاری راستہ نہیں، بلکہ ایک فریضہ ہے۔ یہ ہمارا عزم ہے کہ ہم ایک ہی خندق میں ایک ہو کر، یکجا ہو کر، دشمن کا سامنا کریں، جس نے کبھی نہ معصوم بچوں کو بخشا، نہ بوڑھوں کو، نہ پتھروں کو، نہ پیڑوں کو۔

میں کوئی ذاتی ورثہ نہیں چھوڑ رہا، بلکہ اجتماعی وراثت چھوڑ رہا ہوں۔ ہر اُس فلسطینی کے لیے، جس نے آزادی کا خواب دیکھا، ہر اُس ماں کے لیے، جس نے اپنے شہید بچے کو اپنے کندھوں پر اٹھایا، ہر اُس باپ کے لیے، جس نے اپنی بچی کو دشمن کی گولی سے زخمی ہوتے دیکھا اور غم کی شدت سے رو پڑا۔

میری آخری وصیت ہے: کبھی ہتھیار نہ ڈالنا، پتھر نہ چھوڑنا، اپنے شہیدوں کو نہ بھولنا، اور اُس خواب پر کوئی سودے بازی نہ کرنا جو تمہارا حق ہے۔ ہم یہاں باقی رہیں گے، اپنی سرزمین میں، اپنے دلوں میں، اور اپنے بچوں کے مستقبل میں۔ اگر میں گرجاؤں تو میرے ساتھ نہ گرنا، بلکہ میرے ہاتھ سے پرچم اٹھا لینا، جو کبھی زمین پر نہیں رہا۔ میرے خون سے ایک پل تعمیر کرنا جو اُس نسل کی راہگزر بنے، جو ہماری راکھ سے پیدا ہوگی۔

جب طوفان دوبارہ برپا ہو اور میں تمہارے درمیان نہ رہوں، تو سمجھ لینا کہ میں آزادی کی موجوں کا پہلا قطرہ تھا، اور میں اس لیے زندہ رہا تاکہ تمہیں سفر کی تکمیل کرتے دیکھوں۔ دنیا سے انصاف کی توقع مت رکھو، میں نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ دنیا ہمارے الم کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔ اپنے دلوں میں فلسطین کا خواب سجائے رکھو، ہر زخم کو ہتھیار بنا لو، اور ہر آنسو کو امید کے چشمے میں بدل دو۔

یہ میری وصیت ہے: اپنے خواب کو عزت سے جیو، اور کبھی ہار نہ مانو۔ ہم یہاں رہیں گے، اپنے حق کے لیے، اپنے وطن کے لیے، اور اُس عظمت کے لیے جس کا سودا کبھی نہ کیا جائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .