۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
مصاحبه با حجت الاسلام والمسلمین قربانی

حوزہ/ دفاع مقدس میں شریک ایک جانباز عالم دین نے کہا: میں خود کو امام زمانہ (عج) کا مقروض سمجھتا ہوں اور اس لباس کو اپنے لیے فخر سمجھتا ہوں، اور کسی قیمت پر بھی اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہفتۂ دفاع مقدس اور اُس دور کے بہادر سپاہیوں کی قربانیوں کی یاد میں، حوزہ نیوز ایجنسی نے آٹھ سالہ دفاع مقدس کے جانباز سپاہی حجۃ الاسلام والمسلمین علی اصغر قربانی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

میں خود کو امام زمانہ (عج) کا مقروض سمجھتا ہوں : حجۃ الاسلام علی اصغر قربانی

آپ نے کس وقت اور کس مقصد کے ساتھ جنگ میں شرکت کی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم؛ جنگ کے ابتدائی دنوں میں، تقریباً 20 دن بعد، ہم طلبہ کا ایک گروہ اہواز گیا اور وہاں چند دن قیام کیا، پہلی مرتبہ، ہم نے سوسنگرد اور حمیدیہ جیسے علاقوں میں مشن انجام دیے، اُس وقت میری عمر 21 سال تھی اور میں حوزوی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔

جنگ کے آغاز میں آپ کے پاس کیا عسکری وسائل تھے؟

وسائل بہت محدود تھے، ہمیں گولیوں کی بھی قلت تھی اور غیر ضروری فائرنگ کی اجازت نہیں تھی، ہم پر پابندی تھی کہ فائرنگ نہ کریں کیونکہ گولیاں کم تھیں۔

آپ پہلی بار کس آپریشن میں شریک ہوئے؟

میں ایک تہاجمی اور ایک دفاعی آپریشن میں شریک تھا، ایک موقع پر 48 گھنٹے تک عراق نے شہر پر حملہ کیا اور ہم دفاع کر رہے تھے، آپریشن والفجر 3 میں، جس میں میں 1362 میں شامل تھا، مجھے چوٹ لگی اور میں جانباز ہو گیا۔

میں خود کو امام زمانہ (عج) کا مقروض سمجھتا ہوں : حجۃ الاسلام علی اصغر قربانی

آپ کس طرح زخمی ہوئے؟

یہ حادثہ 12 مرداد 1362 کو صبح ساڑھے سات بجے پیش آیا، ایک مورچے میں تبلیغ کر رہا تھا جب ایک 120 ملی میٹر مارٹر کے گولے نے ہمارا مورچہ تباہ کر دیا، جس سے میرا دایاں ہاتھ اور دائیں پاؤں کو اوپری حصہ کٹ گیا۔

آپ کے زخمی ہونے کے بعد، کیا آپ کو ہوش تھا؟

میں تقریباً 30 سیکنڈ تک حیرت اور صدمے میں تھا، لیکن پھر مجھے ہوش آیا اور میں نے دیکھا کہ میرا ہاتھ اور پاؤں کٹ چکے ہیں، مگر میں بے ہوش نہیں ہوا۔

آپریشن کے بعد کیا ہوا؟

مجھے پہلے ایک صحرائی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد مجھے مشہد منتقل کیا گیا، علاج کے دوران، کئی مرتبہ سب کو لگا کہ میں شہید ہو چکا ہوں، لیکن 40 خون کی بوتلیں چڑھنے کے بعد میں زندہ بچ گیا۔

آپ کے اہلِ خانہ کا کیا ردعمل تھا؟

جب میں زخمی ہوا تو میری شادی ہو چکی تھی اور میری بیوی نے مجھے ایک خط لکھا کہ وہ شروع سے ہی کسی جانباز سے شادی کرنا چاہتی تھیں، اور وہ اپنے اس خواب کی تعبیر پر شکر گزار تھیں۔

آپ کے بچے آپ کی جانبازی سے متاثر نہیں ہوتے؟

الحمدللہ، میرے بچوں نے کبھی اس معاملے پر کوئی منفی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ ایک جانباز ہونے کے بعد آپس نے لباس روحانیت کیوں پہنا ہوا ہے؟ کیوں کہ ایک جانباز کے لئے اس طرح کا لباس پہننا سخت ہے؛ اس سختی کے با وجود بھی آپ نے علما کا لباس پہنا ہے اور اسی مین رفت و آمد کرتے ہیں، اس لباس کا مقصد کیا ہے؟

میں اپنے آپ کو امام زمانہ (عج)کا مقروض سمجھتا ہوں اور اس لباس کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں اور میں اس لباس کو کسی قیمت پر چھوڑنے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

میں خود کو امام زمانہ (عج) کا مقروض سمجھتا ہوں : حجۃ الاسلام علی اصغر قربانی

مزے کی بات یہ ہے کہ میں ہر جگہ اسی کپڑوں میں جاتا ہوں، یہاں تک کہ ایسی جگہوں پر بھی جہاں کچھ مسائل کی وجہ سے دوسرے لباس روحانیت نہیں پہنتے، وہاں میں انہیں کپڑے میں جاتا ہوں اور لوگ ہماری عزت کرتے ہیں، میں نے جان بوجھ کر یہ لباس پہنا تاکہ کم از کم اگر میں اپنی زبان سے تبلیغ نہ کر سکوں تو عملی طور پر مذہب حقہ کی تبلیغ کر سکوں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .