۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
ڈاکٹر دینا سلیمان انڈونیشیا

حوزہ/ انڈونیشین کارکن محترمہ ڈاکٹر دینا سلیمان نے 38ویں بین الاقوامی اتحاد اسلامی کانفرنس کے پہلے آنلائن کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ دنیا فلسطینی مزاحمت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انڈونیشین کارکن محترمہ ڈاکٹر دینا سلیمان نے 38ویں بین الاقوامی اتحاد اسلامی کانفرنس کے پہلے آنلائن کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کا اسرائیل نواز میڈیا اور سیاست دانوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر احاطہ کیا گیا ہے۔

سلیمان نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں ایسے لوگوں کی طرف سے احتجاج شروع کر دیا گیا ہے جو اسرائیل کے جنگی جرائم کے لیے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں، اب بیداری بڑھ رہی ہے اور امن اور مذاکرات بے معنی ہو گئے ہیں، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کو امن اور مذاکرات کی دعوت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کی نسل کشی کے بعد، اسلامی دنیا کے متعدد ممالک فلسطین کی حمایت کے لیے مفلوج ہو چکے ہیں، ان کی خاموشی اور اسرائیل کے جرائم کو روکنے کے لیے حقیقی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ نے ایک بہت بڑا خلا پیدا کیا ہے۔

ڈاکٹر دینا سلیمان نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا فلسطینی مزاحمت کی ایک نئی نسل کے ظہور کا مشاہدہ کر رہی ہے، جس میں بڑی تعداد میں افواج، لامحدود ہتھیار اور بے پناہ ہمت کے ساتھ ایک مؤثر حکمت عملی ہے۔

انڈونیشین کارکن نے کہا کہ پسماندہ لوگوں کے لیے ایسی مضبوط صلاحیتوں کا حامل ہونا اور اسرائیلیوں کی مغربی حمایت سے 10 ماہ سے زیادہ زندہ رہنا کیسے ممکن ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ اسرائیل خود کو تباہ کر رہا ہے، لیکن اسرائیل کی تباہی کے لیے ابھی بھی بہت کچھ باقی ہے جو مسلمانوں کو مل کر کرنا ہوگا، کیونکہ یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اسلامی مسئلہ ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مسجد اقصیٰ، جو کہ اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے، اب بھی محاصرے میں ہے، کہا کہ یروشلم میں نسل کشی جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان فلسطین کی حمایت میں متحد ہیں۔

ڈاکٹر دینا سلیمان نے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی انصاف پسند جدوجہد کی حمایت کے حوالے سے مسلمانوں کے فرض پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ہر سیاسی، معاشی اور سیاسی ہتھیار استعمال کرنا چاہیے۔

آخر میں، انڈونیشیائی کارکن نے مزید کہا کہ ہمیں تعلیم، ثقافت اور معیشت وغیرہ کے تمام شعبوں میں اسلامی تعاون کی حدود کو درست کرنا چاہیے، کیونکہ مل کر کام کر کے ہم اپنے معاشرے کو زندہ رکھ سکتے ہیں اور اپنے مشترکہ مفادات کا دفاع کر سکتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .