۱ آبان ۱۴۰۳ |۱۸ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 22, 2024
سنوار

حوزہ/یحییٰ سنوار کی شہادت کے دو دن بعد، سوشل میڈیا پر ایک تصویر نظر آئی، جس میں فلسطینی بچوں نے ہاتھوں میں لکڑی کی چھڑیاں پکڑ رکھی تھیں، چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپا ہوا تھا اور وہ اپنے آپ کو یحییٰ سنوار کی طرح بنا کر کھیل رہے تھے۔ اس تصویر کو دیکھتے ہی میری توجہ کچھ دیر کے لیے رک گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ محض بچوں کا ایک معمولی کھیل نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک عظیم پیغام پوشیدہ ہے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| یحییٰ سنوار کی شہادت کے دو دن بعد، سوشل میڈیا پر ایک تصویر نظر آئی، جس میں فلسطینی بچوں نے ہاتھوں میں لکڑی کی چھڑیاں پکڑ رکھی تھیں، چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپا ہوا تھا اور وہ اپنے آپ کو یحییٰ سنوار کی طرح بنا کر کھیل رہے تھے۔ اس تصویر کو دیکھتے ہی میری توجہ کچھ دیر کے لیے رک گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ محض بچوں کا ایک معمولی کھیل نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک عظیم پیغام پوشیدہ ہے۔

یہ ایک عزم و ارادے کی زندہ تصویر ہے، جو شہید یحییٰ سنوار کی قربانیوں اور ان کی بہادری کی وراثت کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ ان بچوں کا کھیل، جو لکڑی کی چھڑیوں کے ساتھ مسلح ہیں، دراصل ایک یادگار جنگ کی مشق ہے، جو شہید یحییٰ سنوار کی جرأت و بہادری کی علامت ہے۔ یہ بچے صرف کھیل نہیں رہے بلکہ اپنی سرزمین، اپنی شناخت اور اپنے حقوق کے لیے ایک نئی نسل کی تربیت کر رہے ہیں۔

شہید سنوار نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنی قوم کے لیے جو قربانی دی، اس کی گونج غزہ کی گلیوں میں سنی جا سکتی ہے۔ ان کی شہادت کے بعد، جب ان کے خون کی فصل کاٹ دی گئی، تو اس کے اثرات صرف فلسطینیوں تک محدود نہیں رہے۔ یہ ایک پیغام بن گیا کہ مقاومت کبھی ختم نہیں ہوگی، چاہے اس کے لیے کتنی ہی قربانیاں دینا پڑیں۔

یہ بچے اس کھیل کے ذریعے صرف اپنی طاقت کا اظہار نہیں کر رہے، بلکہ وہ اس حقیقت کو بھی منانے میں مشغول ہیں کہ ان کے بزرگوں نے کس طرح ظلم و جبر کے سامنے ڈٹ کر لڑائی لڑی۔ ان کی مسکراہٹیں، جو کبھی کبھی اس صعوبت میں بھی نظر آتی ہیں، ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ امید کی کرن کبھی مدھم نہیں ہوتی۔ یہ کھیل، دراصل ان کی ثقافت، ان کی تاریخ اور ان کے خوابوں کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں میں لکڑی کی چھڑیاں لیے، آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا عزم رکھ رہے ہیں۔

جب وہ کھیل رہے ہوتے ہیں، تو ان کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر جوش ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ صرف بچے نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک نئی نسل ہیں جو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ بچے ایک دن بڑے ہوں گے، اور جب وہ اپنے بزرگوں کی کہانیاں سنیں گے، تو ان کے دل میں یہ عزم ہو گا کہ وہ اپنے حق کے لیے لڑیں گے۔ وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ ان کے بزرگ کیا چاہتے تھے اور ان کی جدوجہد کا مقصد کیا تھا۔

یقیناً، یہ بچپن کا کھیل ایک دن طاقت کا مظاہرہ بن جائے گا۔ یہ بچے ان حالات کو بھولیں گے نہیں جن میں انہوں نے اپنی زندگی گزاری ہے۔ ان کی یہ جدوجہد ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ آزادی کا خواب کبھی مر نہیں سکتا، چاہے حالات کتنے ہی مشکل ہوں۔ یہ ان کی مٹی، ان کی سرزمین اور ان کی شناخت کے لیے ایک نیا عزم ہے۔

عالمی سطح پر، اس کھیل کا پیغام یہ ہے کہ فلسطینی قوم اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتی رہے گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے صیہونی مظالم کے خلاف یہ بچے، جو لکڑی کی چھڑیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، دراصل اپنے بزرگوں کی جرات کا علمبردار بن رہے ہیں۔

شہید سنوار کا نام، ان کی قربانی، اور ان کے مقاصد ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہی وہ روح ہے جو ان بچوں میں موجود ہے۔ یہ ایک ایسا عزم ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ جب تک فلسطین کے لوگ اپنی آزادی کے لیے کھڑے ہیں، تب تک شہید سنوار اور ان کے ساتھیوں کی یادیں زندہ رہیں گی۔

آخر میں، ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ یہ بچے صرف کھیل نہیں رہے؛ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور ان کی یہ جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ شہید سنوار کی وراثت ان کے ساتھ ہے، اور جب تک یہ روح زندہ ہے، آزادی کا خواب بھی زندہ رہے گا۔

آج غزہ کے بچے لکڑی کی چھڑیوں سے کھیلتے ہوئے، درحقیقت ایک بڑے مقصد کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں لکڑی کی یہ چھڑیاں نہیں، بلکہ ان کی آزادی کا خواب ہے۔ یہ کھیل ایک دن ان کی حقیقت بن جائے گا، جب وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے میدان میں اتریں گے۔ شہید سنوار کا خواب ان کی آنکھوں میں بسا ہوا ہے، اور وہ اس خواب کی تکمیل کے لیے تیار ہیں۔ یہ کھیل اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی قوم کبھی ہار نہیں مانے گی، اور ان کی آزادی کا سفر جاری رہے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .