تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| حزب اللہ لبنان ہمیشہ سے مقاومت کا ایک مظہر رہی ہے۔ حزب اللہ کے رہنما اور کارکنان نہ صرف دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہیں، بلکہ ہر جنگی میدان میں اپنی بے مثال حکمت عملی سے دشمن کو حیران و پریشان کرتے آئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں، لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے "وفاداری برائے مقاومت" گروپ کے سربراہ، محمد رعد نے ایک اہم اور فیصلہ کن بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے امریکی ایلچی کے دورہ لبنان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
محمد رعد کے اس بیان نے خطے میں جاری جنگ کی حقیقت کو ایک نئے زاویے سے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی موجودہ جارحانہ جنگ محض طوفان الاقصیٰ کا ردعمل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بڑے امریکی و صہیونی منصوبے کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کا مقصد پورے خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غزہ سے لے کر لبنان تک تمام مقاومتی تحریکوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے؛ لیکن حزب اللہ کی قیادت نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ میدان جنگ میں ہی فیصلہ ہوتا ہے اور یہی بات ان دنوں دوبارہ عالمی برادری کو باور کرائی جا رہی ہے۔
محمد رعد نے اپنے بیان میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ حزب اللہ کی قیادت اور اس کے مجاہدین نے پچھلے دو ہفتوں میں ثابت کیا ہے کہ وہ صہیونی دشمن کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں۔ دشمن کے زمینی حملے حزب اللہ کی بہادری اور دانشمندانہ حکمت عملی کے سامنے دم توڑ چکے ہیں۔ حزب اللہ نے نہ صرف ان حملوں کو ناکام بنایا، بلکہ صہیونیوں کو ایسے مقامات پر نشانہ بنایا جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔
یہ اہم بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر کے ایلچی "آموس ہوکشتائن" لبنان پہنچے تاکہ لبنانی حکومت کے ساتھ جنگ کے خاتمے پر بات چیت کی جا سکے؛ لیکن حزب اللہ کا موقف اس حوالے سے واضح ہے کہ جب تک دشمن کی جارحیت جاری رہے گی، مقاومت بھی پورے زور و شور کے ساتھ جواب دیتی رہے گی۔ میدان جنگ میں حزب اللہ کی پیش قدمی اور صہیونیوں کی پسپائی نے دشمن کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
حزب اللہ کے جوابی حملوں نے نہ صرف فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں صہیونی بستیوں کے مکینوں کو دہشت میں مبتلا کر دیا ہے، بلکہ ان حملوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مقاومت کا عزم فولادی ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے مختلف علاقوں پر کامیاب حملے کر کے دشمن کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حزب اللہ کی جانب سے کیے گئے ان حملوں نے نہ صرف دشمن کے حوصلے پست کیے ہیں بلکہ ان کے لیے شمالی علاقوں میں رہنا ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گیا ہے۔
یہ جنگ نہ صرف عسکری طاقت کی جنگ ہے بلکہ عزم، حوصلے اور ایمان کی بھی جنگ ہے۔ حزب اللہ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ میدان جنگ میں طاقت کا توازن ہمیشہ اس کے حق میں رہا ہے اور رہے گا۔
یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنے ہتھیاروں کی تیاری اور مقاومتی حکمت عملی کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عوامی حمایت کے نظام کو بھی بہتر بنایا ہے۔ لبنان میں اس کی حمایت کی جڑیں گہری ہیں اور یہ عوام کی روز مرہ کی زندگی میں شامل ہے۔ ان کی قوّت اس میں ہے کہ وہ نہ صرف میدان جنگ میں اپنی طاقت دکھاتے ہیں بلکہ سیاسی میدان میں بھی اپنی موجودگی کو محسوس کراتے ہیں۔
حالیہ واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حزب اللہ کا عزم نہ صرف اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے بلکہ یہ فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی اور آزادی کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ یہ عزم ان کی معنوی، روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر بھی قائم ہے، جس میں ان کا ایمان، اتحاد اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ شامل ہے۔
اس تمام تر تناظر میں، یہ واضح ہوتا ہے کہ میدان جنگ میں فیصلہ ہوتا ہے۔ دشمن کی تمام کوششیں، چاہے وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گی جب تک کہ حزب اللہ کا فولادی عزم، ایمانی طاقت اور عوام کا ساتھ برقرار رہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو صرف میدان میں نہیں بلکہ دلوں میں بھی جاری ہے اور یہی وہ طاقت ہے جو حزب اللہ کو ایک ناقابل تسخیر قوّت بناتی ہے۔