تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| حزب اللہ ہمیشہ سے مقاومت کی علامت رہی ہے، جس کی قیادت نے نہ صرف اپنے دشمنوں کا بے باکی سے سامنا کیا بلکہ ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی کے تحت خطے میں ایک ناقابل تسخیر محاذ بھی تشکیل دیا، حالیہ دنوں میں، حزب اللہ کے پارلیمانی رکن علی فیاض نے الجزیرہ سے بات چیت کے دوران ایک اہم بیان دیا ہے جس میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ تنظیم کی قیادت اور میدانِ عمل کا پورا ڈھانچہ دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ اس بیان کے کئی پہلو ہیں جو مستقبل کی جدوجہد اور حزب اللہ کی مقاومتی حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔
علی فیاض کے مطابق، حزب اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ میدانِ جنگ میں دشمن کا سامنا کرنے کا مرحلہ سفارتی اقدامات سے علیحدہ رکھا جائے گا۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے کیونکہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سی تنظیمیں سیاسی اور سفارتی کوششوں کو میدانِ جنگ کی حکمت عملیوں کے ساتھ جوڑ دیتی ہیں، جس سے ان کے مقاصد اور موقف میں ضعف پیدا ہوتا ہے۔ حزب اللہ نے واضح طور پر اس سے بچنے کا فیصلہ کیا ہے اور میدانِ جنگ میں دشمن کا مقابلہ ایک الگ حیثیت میں کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ حزب اللہ صرف سفارتی دباؤ پر اکتفا نہیں کر رہی، بلکہ عملی طور پر اپنے دشمن کا سامنا کرنے کی پوری تیاری کر چکی ہے۔
علی فیاض نے ایک اور اہم نکتہ اٹھایا کہ مقاومت کی طاقت، ریاست کے سیاسی موقف کا ایک بنیادی ستون ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حزب اللہ کی مقاومت نہ صرف ایک عسکری تحریک ہے، بلکہ یہ لبنان کی ریاستی پالیسی کا ایک اہم جز بن چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ لبنان کی حکومت نے بھی حزب اللہ کی مقاومت کو ایک مؤثر سیاسی طاقت کے طور پر تسلیم کیا ہے اور اس کو اپنی سرکاری پالیسیوں کا حصہ بنایا ہے۔ دشمن کے خلاف حزب اللہ کی پوزیشن کو تقویت ملتی ہے جب ریاست خود اس کے پیچھے کھڑی ہو اور یہی وہ نکتہ ہے جو حزب اللہ کے مقاومتی موقف کی تائید میں جاتا ہے۔
پچھلے پندرہ دنوں میں اسرائیل کو میدانِ جنگ میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے، جیسا کہ علی فیاض نے بیان کیا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حزب اللہ نہ صرف دفاع میں کامیاب رہی ہے بلکہ دشمن کو بھی پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دشمن کی کسی بھی زمینی پیش قدمی کو مقاومت کی شدید آگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ حزب اللہ کی حکمت عملی نہ صرف دشمن کو روکنے پر مبنی ہے بلکہ اس کی طاقت کو ختم کرنے اور اسے قدم جمانے سے روکنے پر مرکوز ہے۔ یہ ایک سخت گیر حکمت عملی ہے جس کا مقصد نہ صرف دفاع کرنا ہے بلکہ دشمن کے عزائم کو ناکام بنانا اور اسے نقصان پہنچانا ہے۔
علی فیاض کا بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حزب اللہ کا اگلا مرحلہ مقاومت میں مزید معیاری کارکردگی کا ہوگا۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ تنظیم صرف دفاعی حکمت عملی پر انحصار نہیں کر رہی، بلکہ آنے والے دنوں میں مزید سخت اور مؤثر کاروائیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ حزب اللہ ہمیشہ سے اپنی حکمت عملیوں میں جدت لاتی رہی ہے اور اس بار بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو حیران کرنے کے لیے تیار ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حزب اللہ کی حالیہ حکمت عملی ایک ایسی تنظیم کی عکاسی کرتی ہے جو اپنے دشمن کے خلاف نہ صرف دفاع بلکہ سخت سے سخت اقدامات کے لیے بھی تیار ہے۔ علی فیاض کی گفتگو میں جو نکات سامنے آئے ہیں، وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حزب اللہ کی قیادت نے ایک وسیع اور مضبوط حکمت عملی تیار کی ہے جس کا مقصد دشمن کو میدانِ جنگ میں شکست دینا ہے، نہ کہ صرف دفاعی پوزیشن اختیار کرنا۔
یہ بیان اس بات کا بھی اظہار کرتا ہے کہ حزب اللہ کی مقاومت ایک تحریک، ایک مکمل فلسفہ اور سوچ ہے جو دشمن کے عزائم کو نہ صرف روکتی ہے بلکہ انہیں شکست سے دو چار کرتی ہے۔ حزب اللہ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے اصولوں اور عزائم پر قائم رہتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کیا ہے اور آج بھی یہی حکمت عملی اس کے مستقبل کی جنگی حکمت عملیوں کی بنیاد ہے۔
آنے والے دنوں میں حزب اللہ کی اس نئی حکمت عملی کے نتائج کا مشاہدہ اہم ہوگا اور یہ بھی غور طلب ہوگا کہ دشمن کس طرح اس طاقتور مقاومتی محاذ کا سامنا کرتا ہے۔