۲۴ آذر ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 14, 2024
مولانا امداد علی گھلو

حوزہ/حال ہی میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو کچھ حلقے گمراہ کُن طور پر اسے "شیعہ بمقابلہ اسرائیل" کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈا کو مزید تقویت دینے میں بعض صحافیوں کا کردار بھی شامل ہے، جنہوں نے اس موضوع پر غیر مستند رائے عامہ کو فروغ دیا ہے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| حال ہی میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو کچھ حلقے گمراہ کُن طور پر اسے "شیعہ بمقابلہ اسرائیل" کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈا کو مزید تقویت دینے میں بعض صحافیوں کا کردار بھی شامل ہے، جنہوں نے اس موضوع پر غیر مستند رائے عامہ کو فروغ دیا ہے، مثال کے طور پر: جاوید چوہدری جیسے سینئر صحافی نے اپنے ایک کالم میں یہ دعویٰ کیا کہ عرب دنیا اس جنگ کو "شیعہ اور اسرائیل" کی جنگ سمجھتی ہے اور اسی بنا پر عرب ممالک نے اس سے خود کو دور رکھا ہے۔ تاہم، یہ موقف حقائق سے مکمل طور پر متصادم ہے اور فلسطینی تحریک اور مزاحمت کو مسلکی رنگ دے کر اسلامی اتحاد کو تقسیم کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔

اس دعوے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں فلسطینی تحریک اور اس کی بنیادوں پر غور کرنا ہوگا۔ 1948ء میں اسرائیل سرزمین فلسطین پر قابض ہوا، اور اس وقت سے لے کر آج تک فلسطینی عوام کی اکثریت اہلسنت سے وابستہ رہی ہے۔ فلسطین کی سنی اکثریت اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے دہائیوں سے مزاحمت کر رہی ہے۔ سب سے بڑی مزاحمتی تنظیم "حماس" ہے، جس کی قیادت سنی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ کیا جاوید چوہدری اور ان کے ہم خیال لوگ اس بات سے آگاہ نہیں کہ حماس ایک سنی مزاحمتی تنظیم ہے؟ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین، جو 2004 ء میں اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہوئے، سنی تھے، نہ کہ شیعہ۔ اسی طرح اسماعیل ہنیہ، حماس کے رہنما بھی سنی تھے جنہیں تہران میں شہید کیا گیا۔ معروف فلسطینی رہنماء خالد مشعل اور حماس کے موجودہ سربراہ یحییٰ سنوار بھی اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں۔

نیز حقیقت کو سمجھنے اور ضمیر کی بیداری کے لیے یہ سوال ضروری ہے: کیا اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے حماس کے مندرجہ ذیل سرکردہ رہنما شیعہ تھے؟ کیا انہیں شیعہ ہونے کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا؟

عماد عقل، یحییٰ عیاش، اسماعیل ابو شنب، فلسطینی طبیب اور ممتاز سیاسی رہنما عبد العزیز الرنتیسی، عدنان الغول، سعید صیام، احمد الجعبری اور رائد العطار۔

یہ تمام رہنما فلسطینی تھے اور حماس جیسی مزاحمتی تنظیم کے اہم ستون تھے۔ ان کی شہادت کی وجہ ان کا شیعہ ہونا نہیں تھا بلکہ یہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ان کی مزاحمت اور جدوجہد تھی، جو انہیں دشمن کے نشانے پر لے آئی۔ ان کی قربانیاں کسی مسلکی تقسیم کی بنیاد پر نہیں، بلکہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں دی گئیں۔

علاوہ بریں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا اس جنگ کو "شیعہ اور اسرائیل" کے تناظر میں کیسے دیکھ سکتی ہے، جبکہ فلسطینی مزاحمت میں سنی اور شیعہ دونوں شامل ہیں؟ فلسطینی عوام کا بنیادی مسئلہ بیت المقدس، مقبوضہ زمین اور ان کی آزادی کا ہے، جو کسی خاص فرقے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔

1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نما سینا، شام سے گولان کی پہاڑیاں اور اردن سے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ علاقے شیعہ اکثریتی تھے؟

بیت المقدس، جو اس تنازع کا مرکز ہے، مسلمانوں کے لیے مکہ و مدینہ کے بعد تیسرا مقدس مقام شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف شیعہ بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے مقدس ہے۔ کیا خود غرض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیت المقدس کا مسئلہ صرف شیعہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے؟ یہ سوال خود ہی مفاد پرستوں کے دعوے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

عرب ممالک کے بعض حکمران ضرور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں؛ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ان ملکوں کی عوام بھی اس جنگ کو فرقہ وارانہ نظر سے دیکھ رہے ہیں؟! یا یہ ان حکمرانوں کی سیاسی مجبوری اور خود غرضی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ عرب عوام، خاص طور پر مصر، اردن، لبنان، اور شام جیسے ممالک کے لوگ فلسطینیوں کی حمایت میں ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ ایک شیعہ جماعت ہے؛ لیکن وہ تو ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے اسرائیل کے خلاف سرگرم رہی ہے اور فلسطینیوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔

حیرت ہے کہ بعض افراد نے اپنے آپ کو مردہ ضمیر، بے خبر اور غیر ذمہ دار بنا لیا ہے، اور انہیں فلسطین کے ہزاروں، لاکھوں شہداء کی قربانیوں کی کوئی پروا نہیں۔ وہ فلسطین میں موجود سنی اکثریت سے آنکھیں چرا رہے ہیں، اور اپنی بزدلی کی پردہ پوشی کے لیے اس جنگ کو اسرائیل اور شیعہ جنگ قرار دیتے ہیں۔

دراصل ان کا یہ رویہ حقیقت سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔

مفاد پرست و خود غرض افراد کی طرف سے اس جنگ کو فرقہ واریت کے خانے میں ڈالنا، فلسطینی کاز کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک منفی پروپیگنڈا ہے جس کا مقصد اسلامی دنیا کو اس جنگ سے دور رکھنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ اسلام اور یہودیت کے درمیان ہے، اور اسرائیل کی مخالفت پورے عالم اسلام کی ذمہ داری ہے، نہ کہ صرف شیعہ یا سنی مسلمانوں کی۔

آج کا اسرائیل نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں اپنے ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ اس کی مخالفت کے لیے شیعہ اور سنی مسلمان ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلامی دنیا کو خود غرض افراد کے پروپیگنڈا سے بچنے اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ فلسطینیوں کی آزادی اور اسلامی تشخص کی بقا کی جنگ ہے، اور اسے فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنا اس مقدس جدوجہد کے ساتھ ناانصافی ہے۔

یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ جنگ نہ صرف ایک علاقے کی جنگ ہے، بلکہ یہ حق و باطل کی لڑائی ہے۔ یہ اسرائیل کی ظلم و استبداد کے خلاف مزاحمت کی جنگ ہے، جس میں شیعہ اور سنی دونوں برابر کے شریک ہیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .