تحریر: سید شجاعت علی
حوزہ نیوز ایجنسی| 07 اکتوبر 2023 کو حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کیے گئے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے درمیان شروع ہوئی یہ جنگ اپنا دائرہ وسیع کرتی گئی ہم نے دیکھا کہ لبنان کی سرزمین سے حزب اللہ جیسی طاقتور تنظیم نے اہل غزہ کی حمایت میں شمالی اسرائیل پر حملوں کا آغاز 8 اکتوبر 2023 کو ہی کر دیا۔
اس کے بعد یمن کی عوامی رضا کار فورس انصار اللہ الیمن اور یمنی حکومت نے اسرائیل پر ڈرون حملوں کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل کی بحری ناکابندی شروع کردی اور ساتھ ہی عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی نے بھی اسرائیل پر حملوں کا آغاز کر دیا۔ اس طرح اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر کی جانے والی وحشیانہ بمباری اور زمینی آپریشن کے جاری رہنے کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف متعدد محاذ کھل گئے۔ یمن کی عوامی رضاکار فورس اور سرکاری فوج کے مشترکہ بحری اور فضائی آپریشنز جن کا مقصد اسرائیلی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے ساتھ اسرائیل کی بحری ناکہ بندی بھی کرنا تھا اس قدر سخت ہوا کیا اس کی زد میں اسرائیل جانے والے متعدد ممالک کے بحری جہاز آنا شروع ہوگئے اور صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب یمنی فورسز نے امریکہ اور برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک کے بحری جہازوں پر بھی ڈرون اور میزائل حملے شروع کر دیئے جس کی پاداش میں امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل نے بھی یمن کی الحدیدہ بندرگاہ سمیت انصاراللہ کی کئی دیگر تنصیبات پر فضائی حملے کیے اسی طرح عراق میں الحشد الشعبی پر امریکہ نے متعدد بار فضائی حملے کیے کیونکہ الحشد الشعبی کی جانب سے نہ صرف اسرائیل بلکہ عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر بھی ڈرون اور راکٹ حملے ہونے شروع ہوگئے تھے جو تاحال جاری ہیں۔ اس دوران صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب اسرائیل نے شام پر اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لیے حملے شروع کر دیئے اور اسی تسلسل میں اسرائیل نے یکم اپریل 2024 کو دمشق میں ایرانی سفارتخانہ پر حملہ کر دیا جس میں ایران کی قدس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور نائب بریگیڈیئر جنرل محمد ہادی حاجی رحیمی سمیت متعدد افراد شہید ہوگئے اس حملے کے بعد ایران نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور اسے اپنی سرزمین پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کا اعلان کیا اور 13 اپریل 2024 کی شام کو تمام تر یورپی اور امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایران نے بڑے پیمانے پر اسرائیل پر ڈرون اور میزائل داغتے ہوئے اسے اسرائیل کے خلاف آپریشن وعدہ صادق کا نام دیا اس آپریشن میں اسرائیل کی فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس طرح مشرق وسطیٰ کی اس جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا اس بعد ایران کی کچھ تنصیبات پر ڈرون سے حملوں کی خبر آئی لیکن ایران نے ان حملوں کو کھلونہ ڈرون کے حملے قرار دے کر اس کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی لیکن اسرائیل اس جنگ کو وسعت دینے کی مسلسل کوشش میں تھا اور ایران کو اس جنگ میں ملوث کرنا چاہ رہا تھا تاکہ غزہ میں ہوئی اس کی شکست پر پردہ پڑے وہ مسلسل کوشش میں رہا کہ ایران اس جنگ میں ملوث ہو اسی منصوبہ کے تحت اس نے 31 جولائی 2024 کی رات حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ان کی رہائش گاہ پر ایک حملہ کرکے شہید کر دیا وہ اس وقت ایران کے سرکاری مہمان تھے اور ایران کے نئے صدر مملکت مسعود پزیشکیان کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کے لیے تہران آئے ہوئے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کے اندر اس کے سرکاری مہمان کو قتل کیے جانے کے واقعہ نے ایران کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید دباؤ میں لایا اور اس کی سیکیورٹی پر بھی کئی طرح کے سوالات کھڑے کر دیئے جس پر ایران نے جوابی کارروائی کا اعلان کیا لیکن جوابی کارروائی میں جلد بازی سے کام لینے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لیا شاید اس کی بنیادی وجہ غزہ میں جنگ کے لیے شروع ہوئے مزاکرات کو متاثر نہ کرنا تھا۔ لیکن اس دوران اسرائیل نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا اور اس کی ہمت مزید بڑھ گئی تھی شاید وہ اس زعم میں مبتلا ہوچکا تھا کہ وہ اپنے اتحادیوں کی مدد سے ایران کو اپنے اوپر مزید حملے سے روکے رکھنے میں کامیاب رہے گا یا شاید امریکہ کو ایران سے براہ راست جنگ میں ملوث ہونے پر مجبور کر دے گا۔ حالات اس وقت مزید بگڑ گئے جب لبنان کی عوام کو وسیع پیمانے پر پیجر حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے کچھ ہی دنوں کے اندر 27 ستمبر 2024 کو حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ اور ان کے ساتھ ایران کے جنرل عباس نیلفروشان کو بمباری کرکے شہید کر دیا گیا۔ یہ شہادتیں اس بات کا سبب بنی کہ جمہوری اسلامی ایران، اسرائیل کے ان ظالمانہ اقدامات اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر اس کے خلاف براہ راست موثر عسکری کارروائی کرے اور ایران نے یکم اکتوبر 2024 کی رات کو تقریباً 200 میزائلوں سے اسرائیل کی مختلف تنصیبات پر حملہ کر کے یہ کارروائی کر ڈالی جس میں اسرائیل کے ایک ائیر بیس سمیت متعدد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اسرائیل کا آئرن ڈوم اس حملے کو روکنے میں بری طرح ناکام رہا۔ ایران پر اس حملہ کے سلسلہ میں حماس کے قائد اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد سے دباؤ بڑھ چکا تھا جو اس وقت مزید بڑھا جب حزب اللہ لبنان کے قائد سید حسن نصر اللہ اور ان کے ساتھ ایرانی جنرل عباس نیلفروشان کو اسرائیل نے شہید کیا۔
اسرائیل نے ایران کے اس حملہ پر جوابی کارروائی کا اعلان کیا جس کے بعد ایران نے ایسا کرنے پر بھرپور جوابی کارروائی کا دو ٹوک موقف اپنایا اس دوران خطہ میں امریکی اور ایرانی سفارتکاری میں تیزی آئی۔ بظاہر امریکہ یہ اعلان کرتا ہوا نظر آیا کہ وہ اس کشیدگی کو ختم کروانا چاہتا ہے لیکن اگر خطہ میں اس کی سرگرمیوں کو دیکھا جائے اس کے بیانات اس کے عمل کے منافی ثابت ہوتے ہیں۔ امریکی جنگی جہازوں بالخصوص فائٹر جیٹ طیاروں میں ایندھن بھرنے والے طیاروں کی اس کے مختلف ائیر بیسز پر آمد یہ بتاتی ہے کہ وہ اسرائیل کے نہ صرف دفاع میں شریک ہے بلکہ اسرائیل کی جانب سے 26 اکتوبر 2024 کی رات کے پچھلے پہر ایران کی مختلف فوجی تنصیبات پر کیے گے میزائلی اور ڈرون حملوں میں اس نے عراق میں اپنے اڈوں سے بھرپور سہولت کاری کی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس حملہ میں 100 جدید ترین فائٹر جیٹ طیاروں نے حصہ لیا لیکن ایرانی دفاعی نظام مضبوط ہونے کی وجہ سے یہ طیارے ایرانی حدود میں داخل نہ ہوسکے اور عراق میں ایرانی سرحد کے قریب سے انہوں نے ایران کی مختلف فوجی تنصیبات پر میزائل فائر کیے۔ ایرانی حکام کے مطابق اس کے فضائی دفاعی نظام نے کامیابی سے ان میزائلوں کو روکا تاہم کچھ ان تنصیبات پر لگنے میں کامیاب ہوئے جن کی وجہ سے انتہائی محدود پیمانے پر نقصان ہوا اور اس کے متعدد فوجی زخمی ہوئے اور آخری اطلاعات تک پانچ فوجی آفیسرز اور جوان شہید ہوئے اس کے ساتھ ہی کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک بھی بتائی گئی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اس حملہ کے بعد اگر ہم امریکہ کے بیان کا جائزہ لیں تو یہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل، ایران سے جنگ بندی کا خواہاں ہے اور وہ یہ باتیں امریکی حکام سے کروا رہا ہے۔ اسرائیل لبنان میں جنگ شروع کرنے کے بعد جنگ کی شدت سے اس وقت جن مسائل سے دوچار ہو چکا ہے جن میں معاشی مسائل کے ساتھ، فوج خدمات انجام دینے سے اس کے شہریوں کا انکار، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ اور اندرون ملک اور بیرون ملک اسرائیلی شہریوں کی ہجرت جیسے مسائل شامل ہیں اور ان میں غزہ میں اسرائیلی شہریوں کی قید کی وجہ سے ان کے لواحقین کی جانب سے بڑھتا ہوا دباؤ بھی شامل ہے۔ ان سب مسائل کی وجہ سے اسرائیل کی یہ خواہش ہے کہ کسی نہ کسی صورت اب ایران کے ساتھ اس کی جنگ بندی ہو اور اس پر ایران ایک اور حملہ نہ کرے۔ اسی طرح امریکہ، برطانیہ ، یورپ اور کئی عرب ممالک بھی نہیں چاہتے کہ ایران اسرائیل پر ایک اور حملہ کرے۔ امریکہ اور یورپ کا کچھ دباؤ بھی اسرائیل پر ہے کہ وہ براہ راست ایران سے کشیدگی کو کم کرے۔
یہ خبریں بھی سنی گئی ہیں کہ اسرائیل، حزب اللہ لبنان سے بھی جنگ بندی چاہتا ہے جس کی امریکی وزیر خارجہ نے حالیہ دنوں میں اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران کوشش بھی کی ہے۔ لیکن وہ بری طرح ناکام ہوا کیونکہ یہ سارے جنگی محاذ غزہ کی حمایت میں کھلے ہوئے ہیں اور غزہ میں حماس و جہاد اسلامی کی شرائط پر ہی جنگ بندی ممکن ہے حزب اللہ لبنان، حشد الشعبی عراق ، انصار اللّٰہ یمن، شامی حکومت اور ایران اس جنگ میں غزہ پر اسرائیلی ظلم و بربریت کی وجہ سے اترے ہوئے ہیں اور قیمتی ترین افراد کی قربانیاں دے چکے ہیں جن میں سید حسن نصراللہ جیسی شخصیت کی قربانی بھی شامل ہے۔ دوسری طرف خود حماس کی قیادت اپنے دو قائدین اسماعیل ہانیہ اور یحییٰ سنوار کی قربانی دے چکی ہے۔ ان سب حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں لگتا کہ حماس اپنی اہم ترین شرائط میں کوئی لچک دکھا کر جنگ بندی پر آمادہ ہوگی خاص کر جب ایسا کرنے سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہو۔ لہذا حماس کے ساتھ جنگ بندی نہ ہونے کی صورت میں مقاومت کی جانب سے کھولے گے تمام محاذوں سے اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہوا نظر آ رہا ہے اور شاید اس میں مزید تیزی بھی آئے اور پہلے سے زیادہ سخت کارروائیاں ہوں۔ دوسری طرف ہم ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر براہ راست حملوں کے تناظر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو اگر دیکھیں تو بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے گئے اس حملہ کے بعد جس میں ایرانی فوجی شہید اور زخمی ہوئے ہیں ایران اس کا جواب نہ دے ایران جوابی کارروائی میں اپنے مزاج کے مطابق دیر تو کر سکتا ہے لیکن حملہ نہ کرے ایسا نہیں لگتا۔ ایران کا سیاسی مزاج ہے کہ دشمن پر وار کرنے سے قبل عالمی قوانین کو حرکت میں لانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ عالمی ادارے اس کا نوٹس لیں بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ادارہ جو بدقسمتی سے امریکہ اور یورپ کی ہڈ دھرمیوں اور من مانیوں کی وجہ سے بالکل بے اثر ہو کر رہ چکا ہے۔ ایران یہ جانتا ہے کہ سلامتی کونسل سے اسے انصاف نہیں ملنا لیکن پھر بھی اس سے رجوع ضرور کرتا ہے تاکہ اقوام عالم پر اتمام حجت ہو۔ ایران کے ماضی کو اگر دیکھا جائے تو وہ اپنے موقف کی تائید حاصل کرنے کے لیے بھرپور سفارتکاری سے کام لیتا ہے۔ بہرحال سیاسی اور جنگی داؤ پیج میں بسا اوقات دور رس نتائج کے حصول کے لیے وقتی طور پر کبھی کبھی خاموشی اختیار کرکے دشمن کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی کے لیے مناسب وقت کا انتظار بھی کیا جاتا ہے۔ اس وقت اسرائیل کے حملہ کے بعد خطہ میں کشیدگی میں جو اضافہ ہو چکا ہے اسے سامنے رکھ کر اگر دوسری طرف 05 نومبر 2024 کو امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو بھی اس کشیدگی کے ساتھ جوڑا جائے تو اس وقت سے لیکر 05 نومبر 2024 تک کے ایام بہت ہی اہمیت کے حامل نظر آ رہے ہیں ان ایام میں مشرق وسطیٰ کے اندر اہم تبدیلیاں رونما ہوتی نظر آ رہی ہیں ان میں یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ شاید اس دوران غزہ جنگ کسی معاہدہ کی بنا پر بند ہو جائے۔ جس کے آثار بظاہر کم دکھائی دے رہے ہیں لیکن پھر بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور یہ جنگ جاری رہی تو پھر 05 نومبر کے بعد مشرق وسطیٰ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں مشرق وسطیٰ وہ نہیں رہے گا جو اس وقت ہے۔ حیرت انگیز طور پر پورے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں عجیب و غریب تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ امریکہ ، اسرائیل اور یورپ کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ بن چکی ہے جس میں امریکہ اور یورپ کی ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے کیونکہ دنیا میں یک قطبی نظام کو جو جھٹکے لگ چکے ہیں اس سے یہ نظام بری طرح ہل۔چکا ہے اور امریکہ و یورپ اس کو بچانے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں اور مقابلے میں ایران اور خطہ میں اس کے اتحادی یعنی مقاومت اسلامی بھی امریکی ، اسرائیلی اور یورپی چالوں کو ناکام بنانے کی ہر ممکن حد تک کوشش کریں گے جو سیاسی اور عسکری دونوں سطح کی ہوسکتی ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ اسرائیل کی غزہ و لبنان کی جنگ اور ساتھ میں ایران سے بڑھتی ہوئی کشیدگی 05 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے اور یہ انتخابات اس وقت اس کشیدگی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں انتخابات کے نتائج کے بعد خود امریکی سیاست اور امریکی سماج پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال امریکی مفادات کو متاثر کر رہی ہے بلکہ روس اور یوکرین کی جنگ بھی ان پر اپنا گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ قرائن و شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ یوکرین جنگ میں روس سے شکست کھا چکے ہیں لیکن اسے تسلیم نہیں کر رہے اور پیسے کے زور پر جنگ کو طول دے رہے ہیں تاکہ روس کو معاشی دباؤ تلے لاکر کسی حد تک اپنی ساکھ بچائی جاسکے۔ غزہ جنگ میں بھی یہی صورتحال ہے اسرائیل اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کرسکا، حماس اپنے دو قائدین کی شہادت کے باوجود پوری طرح فعالیت دکھا رہی ہے، غزہ سے فلسطینیوں کا انخلاء اسرائیل کے لیے ناممکن ہو چکا ہے۔ حماس غزہ سے اپنی جنگی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ حزب اللہ پر اسرائیل کے حملے بھی اس سلسلہ کی کڑی ہیں کہ حزب اللّٰہ کا خاتمہ کیا جاسکے حزب اللہ کے صف اول کے کمانڈر اور پھر اس کے قائدین سید حسن نصراللہ اور سید صفی الدین موسوی کو شہید کرنے کے باوجود حزب اللّٰہ فعال ہے اور پہلے سے زیادہ سخت کارروائیاں انجام دے رہی ہے۔ اسرائیلی سرحد سے کم از کم دس کلو میٹر حزب اللہ کو پیچھے دھکیل کر اس علاقہ پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کا ہدف بھی تاحال بری طرح ناکام ہے۔ اس ساری صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل اس وقت امریکی سہارے پر کھڑا نظر آ رہا ہے۔ جو امریکہ کے لیے ایک بوجھ بن چکا ہے۔ اسرائیل اقتصادی طور پر مفلوج ہوتا جا رہا ہے جس کے اثرات جنگ بندی کے بعد بھی دہائیوں تک رہ سکتے ہیں۔ البتہ امریکہ ، اسرائیل اور ان کے یورپی اتحادیوں کو یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی یہ جنگ ان کی دنیا پر بالادستی کے برقرار رہنے یا خاتمہ کا تعین کرے گی اور دوسری جانب اسلامی مزاحمتی محاذ بھی یہ اچھی طرح جانتا ہے لہذا آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوسکتی ہیں، جن کے اثرات پوری دنیا محسوس کرے گی۔
إِنَّ اللَّہَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّہُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ. (سورہ فاطر، آیت۔38)
"بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے۔ یقیناً وہ دلوں کے رازوں سے خوب واقف ہے۔"