حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین عباس اشجع اصفہانی نے اپنی گفتگو کے دوران شہید حاج عباس نیلفروشان کے قریبی ساتھی، دوست اور ہم جماعتی ہونے کے ناطے اُن کی شخصیت اور زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
انہوں نے کہا: شہید نیلفروشان کی زندگی کی ابتدا سے لے کر ان کے آخری ایام تک، چاہے وہ محاذ پر ہوں یا زندگی کے کسی اور موقع پر، اُنہوں نے کبھی کسی گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہیں کیا۔ اُن کے بقول، "نیلفروشان اتنے پاکیزہ تھے کہ دنیوی معاملات، نمود و نمائش اور خود کو نمایاں کرنے سے ہمیشہ دور رہتے تھے۔"
حجت الاسلام اصفہانی نے شہید نیلفروشان کے بارے میں کہا: اسکول کے زمانے میں بھی ان کا کردار مثالی تھا۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس، منظم اور بااخلاق رہتے تھے، اور اُنہوں نے کبھی غصے یا جھنجھلاہٹ میں بھی کوئی نامناسب بات نہیں کہی۔
شہید کے جذبے اور تربیت کا ایک اور پہلو ذکر کرتے ہوئے وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ دونوں قرآن کی محافل میں شرکت کیا کرتے تھے اور اُس وقت کی قرآنی کلاسز کے تجربات کو اگر آج کی تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے، تو طلبہ کے اندر قرآن سے انسیت پیدا کرنے میں بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا: جنگ کے دوران شہید نیلفروشان نے مختلف اہم عہدوں پر رہتے ہوئے بھی خود کو کبھی نمایاں نہیں کیا اور ہمیشہ ایک عام سپاہی کی طرح اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اُنہوں نے کبھی اپنے مقام اور منصب کا تذکرہ نہیں کیا۔ وہ ایک خاموش اور طاقتور کردار تھے جو میڈیا سے بھی دوری اختیار کیے رکھتے تھے۔
حجت الاسلام اصفہانی کے بقول، شہید نیلفروشان کا مقصد کبھی بھی اپنی حیثیت یا مقام کو ظاہر کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ اپنے ملک کی خدمت میں مشغول رہتے تھے۔ ان کے آخری ایام شام میں داعش کے خلاف جہاد میں گزرے، جس کے بعد وہ واپس ایران آئے اور یہاں کچھ عرصے کے لیے ایک بڑے عہدے پر فائز رہے۔ لبنان واپسی کے وقت انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ "اُنہیں امید ہے کہ وہ یہاں سے سیدھا اصفہان کے شہداء کے قبرستان میں جائیں گے"۔
شہید نیلفروشان کی یہ سادہ، نیک اور بے ریا زندگی اور شہادت ہمیں اپنی زندگی میں حقیقی اخلاص اور عاجزی کو اختیار کرنے کا درس دیتی ہے۔