۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
News ID: 403466
18 اکتوبر 2024 - 07:00
اقتصاد

حوزہ/ آسمانی کتب سے بالعموم اور آخری آسمانی کتاب کلام اللہ مجید قرآن عظیم سے بالخصوص دو موضوعات کا پتہ ملتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالٰی اکلوتے ازلی ابدی خدا نے دوہری (طبیعت اور ماوراء الطبیعت) دنیا بنائی ہے جس میں سے زمین پر انواع و اقسام ازواج کی مخلوقات پیدا کیں جن میں سے ایک قسم کو دنیا کا گلدستہ (اشرف المخلوقات)قرار دیا، تعلیم دی اور سارا علم سکھایا۔

تحریر: آغا سید عبد الحسین بڈگامی

حوزہ نیوز ایجنسی|

خلاصہ:

حوزہ/معاشرتی نظام میں مقصد اچھی کمائی کرنا ہے اور اس اچھی کمائی کے دو پہلو ہیں، ایک کا دائرہ محدود صرف دنیا (طبیعت) ہے اور دوسرے کا دائرہ وسیع دنیا اور آخرت(طبیعت اور ماوراءالطبیعت) ہے جو پہلے والے دائرے میں خود کو محدود سمجھتا ہے اور اسی دائرہ میں اچھائی کرتا ہے تو اسے صرف اسی محدود دائرے میں (دنیا/طبیعت)میں اچھائی حاصل ہوتی ہے اور دوسرے دائرے میں اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور دوسرا وسیع دائرے کا قائل ہے وہ پہلے دائرے(دنیا/طبیعت) میں رہ کر اس عقیدے سے اچھائی کرتا ہے کہ اس کا تعلق وسیع دائرہ (دنیا و آخرت/طبیعت و ماوراء الطبیعت)سے بھی ہے لہذٰا محدود دائرے میں رہ کر اچھائی کرتے وقت وسیع دائرے کی اچھائی حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے جس سے اسے محدود دائرے میں بھی اچھائی کا صلہ حاصل ہوتا ہے اور وسیع دائرے میں بھی اچھائی کا صلہ حاصل ہوتا ہے ۔اور اسطرح اقتصاد کے حوالے سے پہلے قسم کے اقتصاد کو غیر اسلامی اقتصاد کہہ سکتے ہیں اور دوسر ے قسم کے اقتصاد کو اسلامی اقتصاد کہہ سکتے ہیں۔

مقدمہ:

طبیعت اور ماوراء الطبیعیات

آسمانی کتب سے بالعموم اور آخری آسمانی کتاب کلام اللہ مجید قرآن عظیم سے بالخصوص دو موضوعات کا پتہ ملتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالی اکلوتے ازلی ابدی خدا نے دوہری (طبیعت اور ماوراء الطبیعت) دنیا بنائی ہے جس میں سے زمین پر انواع و اقسام ازواج کی مخلوقات پیدا کیں جن میں سے ایک قسم کو دنیا کا گلدستہ (اشرف المخلوقات)قرار دیا، تعلیم دی اور سارا علم سکھایا اور شاگرد اپنے اکلوتے خدا معلم پر ایمان لائے اور زمین پر اکلوتے خدا کا جانشین قرار پائے اور جسے اکلوتے خدا سے نسبت ملی اسکا فنا ہونا ناممکن ہونے کی سند پیش کی اور ایسے انسان کو طبیعت کا گلدستہ (اشرف المخلوقات) ہونے کا درجہ عطا کیا جو ایک اکلوتے خدا کے بتائے ہوئے راستے پر امانتداری کے ساتھ چلتا ہے۔ نہیں تو وہ انسان حیوان سے بھی بدتر درجہ پر آ جاتا ہے۔

غرض انسان یا ازلی فانی (صرف مادی)ہے یا ازلی ابدی (مادی اور معنوی)ہے۔ جو انسان کو ازلی فانی مانتا ہے اسے بے دین یا مادہ پرست کہا جاتا ہے اور جو انسان کو ازلی ابدی مانتا ہے وہ دیندار یا مذہبی کہلاتا ہے اور پھر دیندار اور بے دین بھی کئی قسموں میں تقسیم پائے جاتے ہیں جو کہ ہمارے موضوع کی فرع ہے کہ جس کے بارے میں بحث مطلوب نہیں ہے ہم یہاں پر معاشرت کے وہ دو اسباب یعنی اقتصاد کی بنیاد پر بات کرتے ہیں جو کہ ہمارا موضوع ہے وہ یہ کہ مذہب اور اقتصاد ایک سکے کے دو رخ ہیں جس طرح اعتقادات بنیادی طور دو طرح کے ہیں اقتصاد بھی دو طرح کے ہیں:

ظاہری اقتصاد

ظاہری و باطنی اقتصاد

ظاہری اقتصاد اس معاشرتی مالی نظام کو کہیں گے جس کا تعلق صرف طبیعت سے ہے اور جس کا پوری دنیا میں قاعدہ بھی ایک ہی ہے۔اور دوسری ظاہری و باطنی اقتصاد اس معاشرتی مالی نظام کو کہیں گے جس کا تعلق طبیعت کے ساتھ ساتھ ماوراء الطبیعت سے بھی ہے جس کی گتنی دنیوی قواعد سے مختلف ہے البتہ جتنے دنیا بھر میں دینی اور مذہبی اعتقادات موجود ہیں اتنے ہی تعبیرات ملیں گے جس کے لئے ہر ایک کے پاس اپنی دلیل ہے جن میں سے مشترک مفادات پر یکجہتی اختیار کرنا اسلامی اقتصاد کہلا سکتا ہے۔ اور جس کا خاکہ اللہ سبحان و تعالی اکلوتے خدا نے اپنی کتاب میں یوں بیان فرمایا ہے کہ:

اور دو دریا ایک نہیں ہو سکتے ہیں کہ ایک کا پانی میٹھا اور ایک کا پانی کھارا کڑوا ہو البتہ ان دونوں دریاؤں میں سےموجود کھانے والی حلال مچھلیوں کے تازہ گوشت سے پیٹ بھر کر بھوک مٹانے کے لئے اور پہننے کے لئے زیورات نکالنے کے لئے اورکشتیاں چلانے کے لئے ایک ہیں یہ اسلئے ہے کہ آپ نعمتوں کے قدردان بنیں گے(اختلافات کے باوجود مشترک فائدوں کو ڈونڈ نکال کر مل جل کے کام کریں)۔﴿۳۵ فاطر:۱۲﴾

رائج اقتصادی نظام پر ایک طائرانہ نظر

چونکہ فرد سے لے کر افراد اور افراد سے لیکر سماج تک کی روزہ مرہ زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے طریقہ کار کو معاشرتی نظام یا اقتصاد کہتے ہیں اور گھر چلانے سے لیکر حکومت چلانے تک ایک قہری نظام وجود میں آتا ہے جسے اقتصاد کہتے ہیں۔ گھر کی تشکیل بنیادی اقتصاد کو جنم دیتا ہے اور حکومتوں کی تشکیل حاکمیت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے پیشن نظر اقتصاد کے لئے جامع منصوبہ رکھتا ہے کہ جس میں انسانی تاریخ(ماضی،حال اور مستقبل) پر نظر رکھ کر ماضی کا مطالعہ کرتے ہوئے ماضی سے ملی خامیوں کو حال کے لئے برطرف کرنے کے طریقہ کار کی نشاندہی کرکے ماضی کی خوبیوں کو ابھارنے کی کوشش پر گامزن رہنے کا نقشہ کھینچتا ہے جو کہ علم اقتصاد کہلاتا ہے اور یہی علم اقتصاد انسان کی تمامتر ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش میں کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہونے کے لئے اقتصاد کو پہلے جزئی اور پھر کلی میں تقسیم کرتا ہے اور پھر ضروریات کے رو سے انکی الگ الگ نامگذاری کرکے تحقیق اور تجربے کے میدانوں کو وسیعتر کرنے کا میدان فراہم کرتا ہے۔

معاشرتی نظام میں مقصد اچھی کمائی کرنا ہے اور اس اچھی کمائی کے دو پہلو ہیں ایک کا دائرہ محدود صرف دنیا (طبیعت) ہے اور دوسرے کا دائرہ وسیع ہے دنیا اور آخرت(طبیعت اور ماوراءالطبیعت) ہے جو پہلے والے دائرے میں خود کو محدود سمجھتا ہے اور اسی دائرہ میں اچھائی کرتا ہے تو اسے صرف اسی محدود دائرے میں (دنیا/طبیعت)میں اچھائی حاصل ہوتی ہے اور دوسرے دائرے میں اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور دوسرا وسیع دائرے کا قائل ہے وہ پہلے دائرے(دنیا/طبیعت) میں رہ کر اس عقیدے سے اچھائی کرتا ہے کہ اس کا تعلق وسیع دائرہ (دنیا و آخرت/طبیعت و ماوراء الطبیعت)سے بھی ہے لہذا محدود دائرے میں رہ کر اچھائی کرتے وقت وسیع دائرے کی اچھائی حاصل کرنے کی کوشش رکھتا ہے جس سے اسے محدود دائرے میں بھی اچھائی کا صلہ حاصل ہوتا ہے اور وسیع دائرے میں بھی اچھائی کا صلہ حاصل ہوتا ہے ۔اور اسطرح اقتصاد کے حوالے سے پہلے قسم کے اقتصاد کو غیر اسلامی اقتصاد کہہ سکتے ہیں اور دوسر ے قسم کے اقتصاد کو اسلامی اقتصاد کہہ سکتے ہیں۔

اسلامی اقتصاد

موجودہ دور میں اقتصاد کے حوالے سے کمیونسٹ اقتصادی نظام اور جاگیردارانہ اقتصادی نظام رائج ہے کہ جس کے پیش نظر اسلامی اقتصاد کا خاکہ بیان کرنا لازمی ہے کیونکہ اسلامی اقتصادی نظام پر کبھی کمیونسٹ اقتصادی نظام کا حمایتی اور کبھی جاگیردارانہ نظام کا حمایتی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ اسلامی اقتصاد ایک ایسا قانون مند نظام ہے جو اللہ سبحان و تعالی اکلوتے خدا کے بتائے ہوئے قوانین کے ساتھ نہ ٹکراتا ہو جو کہ مندرجہ چار خصوصیات میں خلاصہ ہوتا ہے:

۱_ اصلی مالک اکلوتا خدا ہے اور انسان اکلوتے خدا کا امانتدار ہے

۲_ پیداوار،مصرف اور خدمات میں ایمان اور اخلاق کو حاکم رکھنا ہے

۳_ پیداوار اور مصرف دونوں میں حلال و حرام کی رعایت کرنے کا پابند رہنا ہے

۴_ زندگی آخرت کی کمائی مقصد ہے

اقتصادی امور میں انسان اکلوتے خدا کا نمایندہ

قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ؛

اللہ سبحان و تعالی اکلوتے خدا اور نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھو اور جس میں آپ کو جس کا وارث اور اپنا نمایندہ قرار دیا ہے (حلال کمائی) میں سے خیرات دو اسطرح جو آپ میں سے مومن بن کر خیرات کرتا رہے اسے اس کا بہت بڑا بدلہ ملے گا(حدید:۷) اسطرح اسلام اقتصاد کے چرخوں میں ایک ایسی مشنری کا اضافہ کرنے کو کہتا ہے جسے عام طور پر خیرات کہتے ہیں کو بے شمار مادی و معنوی در آمد کا ذریعہ قرار دیا ہے اور فرمایا کہ؛ "جس میں آپ کو جس کا وارث اور اپنا نمایندہ قرار دیا ہے میں سے خیرات دو" اور یہی طریقہ کار اسلامی اقتصاد کا راستہ کمیونسٹ اقتصادی نظام اور جاگیردارانہ نظام سے جدا کر کے اپنا راستہ بتا رہا ہے۔ جیسا کہ اس حوالے سے مکتب قرآن اور اہلبییت کے ہمارے علماء رہنمائی کرتے ہیں جن میں سے میں نے یہاں پر اس موضوع کے حوالے سے ایک مرجع تقلید کے بیان کی طرف اشارہ کیا ہے۔

غرض معاشرتی نظام کو اکلوتے خدا کی امانت جاننے اور ماننے سے انسان کو پیداوار، مصرف اور خدمات کے ہر پہلو میں ایک خاص سوج بھوج پیدا ہوتی ہے وہ ہر حال میں امانتداری میں اپنی مرضی کا لحاظ نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کے لئے صاحب امانت کی مرضی معیار رہتا ہے جبکہ جانتا ہو کہ صاحب امانت مناقصہ( سستا) بیچتا ہے اور اسے واپس مزایدہ (مہنگا) خریدتا ہے۔ اسطرح اسلام نے اقتصاد کو اعتقادات کا لازم و ملزوم قرار دیا ہے بلکہ زندہ رہنے کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا:

" تمہاری دولت(مال و میراث) کہ جسے اللہ سبحان و تعالی اکلوتے خدا نے تمہے زندہ رکھنے کے لئے رکھا ہے۔"(نساء)

نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دعا فرماتے تھے؛

یا اللہ! ہماری روٹی(معیشت)کو برکت دے اور ہم کو روٹی(معیشت) سے اور روٹی (معیشت)کو ہم سے جدا نہ کرنا، کیونکہ اگر روٹی (معیشت)نہ ہوتی تو ہم نماز نہیں پڑھتے اور روزہ نہیں رکھتے اور واجبات کو انجام نہیں دیتے۔

پیداوار،مصرف اور خدمات میں ایمان اور اخلاق کو حاکم رکھنا

جب ہی انسان اپنی زندگی اور اپنی زندگی سے وابستہ ہر چیز کو اکلوتے خدا کی امانت جان کر اور مان کر چلے گا تب ہی اس کی معیشت میں پیداوار و کمائی میں بھی اور مصرف و خرچے میں بھی نیز کمانے اور خرچنے میں خدمات دینے یا لینے میں ایمان سے کام لیتے ہوئے ایمان کے اشاروں(اخلاق) کو بہر حال رعایت کرے گا اور جس اقتصاد کے تین چرخوں(پیداوار، مصرف اور خدمات) میں چوتھا چرخہ(اخلاق) بھی لگاکے رکھا جائے گا ایسے اقتصاد میں ہر حال میں منافع دیکھنے کو ملے گا۔ ایسے اقتصاد کو چلانے والے کو اکلوتے خدا نے اپنا پیارا دوست کہا ہے۔ اور ایسے اقتصاد میں شریک ہو کر اپنے اہل و عیال کے لئے حلال کی کمائی کمانے والے کو اللہ سبحان و تعالی اکلوتے خدا کے راستے کا مجاہد قرار دیا ہے۔

حلال و حرام کی رعایت

اقتصاد میں ایک ایسی درآمد رائج ہے کہ جو ربا کے دائرے میں آتا ہے اگرچہ وہ بظاہر منافع ہے لیکن ربا کا منافع نقصاندہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

اور جو لوگ ربا خوار(حرام سود کھانے والے) ہیں،وہ کل جن زدہ پاگلوں کے مانند اٹھیں گے،یہ پاگلوں جیسی حالت اس لئے ہو گی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ربا بھی کار و بار کے منافع کے مانند ہے،جبکہ اللہ سبحان و تعالی اکلوتے خدا نے کاروبار کا منافع حلال اور ربا کو حرام قرار دیا ہے، اس لئے جس تک پروردگار کا وعظ و نصیحت بھرا پیغام پہنچے وہ ربا خواری کو چھوڑ دے،یہ حکم اس تک پہنچنے سے پہلے جو کچھ اس نے ربا خواری سے کمایا ہو وہ خود کو رکھے،اس کا حساب اللہ سبحان و تعالی اکلوتے خدا کے ساتھ ہے اب اگر حکم الہی جاننے کے بعد بھی رباخواری کریں تو سمجھیں جہنم کی اگ میں جلنے والے لوگ ہیں جس میں ہمیشہ جلتے رہیں گے ﴿٢:٢٧٥﴾

شرعی احکام کی پانچ قسمیں ہیں(۱ _تکلیفی،۲ _واقعی اور ظاہری،۳ _اوّلی اور ثانوی،۴ _مولوی اور ارشادی،۵ _تاسیسی اور امضائی) اور یہاں پر پہلا والا حکم شرعی ہمارے موضوع کی اولویت میں آتا ہے جس کی پانچ قسمیں ہیں(۱_واجب،۲_حرام،۳_مستحب،۴_مکروہ،۵ _مباح)

واجب:

پیدائش سے بالغ ہونے تک ہر انسان عام مسلمان ہے جس پر اسلامی احکام کا نفاذ نہیں ہوتا ہے اور جب اسلام پر ایمان لے آتا ہے یا مسلمان گھر میں پیدا ہوا ہے اور بالغ ہو جاتا ہے تو اس پر شرعی احکام نافذ ہو جاتے ہیں اور ایسے کچھ اعمال انجام دینے کا پابند ہو جانا اس کے لئے ضروری بنتا ہے کہ جنہیں انجام دینے سے آخرت آباد ہو جاتی ہے اور انجام نہ دینے سے آخرت برباد ہو جاتی ہے اور ان ضروری اعمال کو واجب عمل کہتے ہیں جن کی بہت قسمیں ہیں اور وہ فروع دین کہلاتی ہیں۔

حرام:

پیدائش سے لے کر ہی کچھ ایسے مخصوص کاموں کو ضروری طور پر انجام نہیں دینا ہے اور اگر کوئی جان بھوج کر انجام دیتا ہے تو وہ اسلامی تعلیمات کے رو سے گنہگار کہلاتا ہے اور گنہگار وہ جو اپنی ماوراءالطبیعت کو جہنم کی آگ سے جلا ڈالتا ہے اور صرف توبہ کی پانی سے وہ آگ بجھائی جا سکتی ہے۔

مستحب:

وہ سنت کہ جسے انجام دینے سے دنیا اور آخرت میں بہت ہی اجر و ثواب ملے گا لیکن انجام نہ دینے کی صورت میں نہ دنیا میں نہ ہی آخرت میں کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ملنے والی ہے۔

مکروہ:

اسلام نے بعض کاموں کو انجام نہ دینے کی سفارش کی ہے اگر وہ انجام نہیں دیتے ہیں تو گناہ سرزد ہونا نہیں کہا ہے البتہ انجام نہ دینے کو سراہا ہے۔

مباح:

جس کام کے انجام دینے کے بارے میں اسلامی احکام کے رو سے نہ واجب ہو، نہ حرام ہو، نہ مستحب ہو اور نہ ہی مکروہ ہو وہ کام مباح کہلاتا ہے کہ جن کے بارے میں اسلام نے کھلی اجازت دے رکھی ہے۔

جب یہ انسان یقین رکھتا ہو کہ اگر میں کسی ایک فرد کو یا سماج کو نقصان پہنچاؤں اکلوتے خدا کے احکامات شرعی کے قاعدے کے مطابق ایسا کرنا حرام ہے اور حرام کام انجام دینا دنیا اور آخرت میں خسارہ اٹھاتے رہنا ہے تو وہ مباح کام کرتا رہے گا نہ ربا(حرام سود) دے گا نہ لے گا نہ ایسا لین دین کرے گا جو حرام ہو۔ وہ نقلی چیز کو اصلی کے بدلے میں نہ لے گا نہ بیچے گا، وہ نہ منشیات کی کوئی بھی چیز نہ لے گا نہ دے گا، پیداوار کے لئے صحیح چیز استعمال میں لائے گا اور جس کا مصرف بھی صحیح ہو گا اور دونوں کاموں(پیداوار اور مصرف) میں خدمات بھی دیتا رہے ایسا کاروبار منافع والا کارو بار ہے جس سے ہر طرف نفع کی برکت حاصل ہوتی ہے۔

مقصد:

اسلامی اقتصاد کی ایک اور عمدہ خاصیت یہ ہے کہ وہ مغرب اور مشرق کے اقتصادی نظام کے مقابلے میں برتری رکھتا ہے وہ اس اعتبار سے کہ مغرب اور مشرق کے اقتصاد کا مقصد صرف اور صرف دنیا ہے اور اسلامی اقتصاد میں دنیا مقصد نہیں بلکہ ذریعہ ہے اور حقیقی مالکیت اکلوتا خدا ہے حقوقی مالک کے طور پر حقیقی مالک کی امانتداری کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے اچھائی کمانے کے میدان میں مسابقہ دینے والوں میں شامل رہنا ہے ۔اسلامی اقتصاد کا یہی مالکیت اور مقصد ممتاز پہلو ہے اور اسی دنیا کو اکلوتے خدا کے چاہنے والوں کی منڈی اور بے نیاز ہونے کا گھر جو اس گھر سے ضرورت کے سامان فراہم کرتا رہے اور آخرت کی پیداوار اگانے کی کھیتی کہا گیا ہے۔

خاتمہ:

قرآن میں اپنے زمانے کے سب سے بڑے جاگیردار قارون کا واقعہ موجود ہے جس سے اسلامی اقتصادی کا مقصد جو کہ چار اصولوں پر قائم ہے بیان ہوا ہے کہ ؛

پہلا اصول:اپنی دولت و ثروت سے اپنے مرنے کے بعد کی زندگی کے لئے بھی آبادکاری کرے ۔

دوسرا اصول:ضرورتمندوں کو اپنی دولت و ثروت میں شریک سمجھ کر ان تک ان کا حصہ پہنچائے۔

تیسرا اصول: احسان کا جواب احسان سے دے۔( اکلوتے خدا نے دولت و ثروت دے کر احسان کیا صاحب دولت و ثروت اسے اکلوتے خدا کے بندوں پر احسان کر کے لوٹا دے کیونکہ جو کچھ کسی ایک فرد کے ہاتھ میں دولت و ثروت ہاتھ آگئی وہ انفرادی کوشش سے حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں بہت سے سارے عوامل درکار ہیں۔)

چوتھا اصول: دولت و ثروت کو ایک فرد کے اختیار میں رہنے سے فساد کا خطرہ لاحق ہے جس خطرے سے نپٹنے کے لئے پہلے ہی تدبیر لازمی ہے۔اور جو کوئی دنیا میں فساد قائم کرے گویا اس نے اکلوتے خدا سے اپنا رشتہ توڑ دیا ہے۔

یہ وہ چار اصول ہیں کہ جن سے ابھی بھی مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور جاگیردارانہ نظام بڑی شدت کے ساتھ ٹکراتے نظر آتے ہیں جبکہ مالکیت اور مقصد کی حد بندی اسلام واضح کر دیتا ہے۔آج مغرب میں کوئی بھی اقتصاد دان انسان کی سعادت اور معنویت کو مالکیت میں نہیں دیکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو جس کے پاس ہے وہ اس پر راضی نہیں ہے مطمئن نہیں ہے،کوئی بھی اپنی مالکیت میں حقیقی طور پر ہر سماج کو دوہرا شریک ماننے کے لئے تیار نہیں ہے تاکہ وہ اسے اس کا حصہ لوٹا دے ،اگر حکومت زبردستی ٹیکس وصول نہ کرے شاید کوئی بھی خود کو سماج کا قرضدار نہیں مانے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مالکیت سماج کی تباہی کا سبب بنتی ہے، اخلاقی طور پر تباہی، جنگوں کے سبب تباہی، انواع و اقسام کی زیاد تیوں کی تباہی، چوری ، ظلم اور مستضعفوں کے حقوق سلب کرنے کی تباہی وغیرہ۔اور اگر غور کیا جائے تو یہ سبھی وہی قارون کا اقتصادی نظریہ ہے کہ جسے قرآن نے نقل کیا ہے کہ قارون کہتا تھا کہ؛

جو کچھ بھی اس نے دولت و ثروت حاصل کی وہ اسکے سائنس و تدبیر کا نتیجہ ہے۔

مغرب بھی اپنی دولت و ثروت کو اپنی پیشرفتہ سائنسی صنعت اور اپنی مخصوص قابلیت کا نتیجہ جتلا رہا ہے مگر اس ترقی میں جو چھوٹی صنعتوں اور مستضعف سماج کی میدانی شراکت کار فرما رہتی ہے اس سے بالکل آنکھیں چراتے ہیں۔ مشرق کے اقتصادی نظام کا بھی یہی حال ہے مشرق کے اقتصادی نظام میں بھی مذکورہ چار اصولوں کو بالکل بھول دیا گیا ہے اور قارونی اقتصادی نظام کے قائل ہیں اور سرکردہ حکام کا سیاسی اور فوجی طاقت نیز اقتصادی طاقت کو اپنے لئے مخصوص رکھنے کو دیکھا جاتا ہے اسی لئے ان کی خود غرضی آسمان کو چھو رہی ہے اور ان تین طاقتوں کو حاصل کرنے میں جن کا تعاون رہا ہے وہ محنتی سماج ہے لیکن اس محنتی سماج کی محنت کو بھول دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سماج میں بڑھتے فساد اور تباہی میں مشرق مغرب سے پیچھے نہیں ہے۔

جہاں جہاں اقتصادی نظام کی بنیاد مذکورہ چار اصول پر قائم نہیں وہ غیر اسلامی اقتصاد ہے چاہے مغرب و مشرق میں بالعموم ہو یا عالم اسلام میں بالخصوص وہ قارونی اقتصاد اور فساد کی جڑ ہے اور اگر مسلمانوں کی زندگی میں مذکورہ چار اصول حکم فرما نہ ہوں تو وہ مسلمان معاشرہ قابل مذمت ہے چونکہ انسانیت ایک لا متناہی بلند مقام ہے جس تک پہنچنے کے لئے اکلوتے خدا نے باضابطہ طور پر سیڑھیاں رکھی ہیں اور جو جس سیڑھی پر چڑھ سکے گویا اسکی ذمہ داری اسی سیڑھی پر چڑھنے کی ہے۔ جیسے کہ ارشاد فرمایا ہے:

اللہ سبحان و تعالی اکلوتا خدا ہر زندہ موجود کو اتنی ہی ذمہ داری دیتا ہے جتنی ذمہ داری وہ خود اٹھا سکتا ہے۔

اور جہاں انسان کو بلند ترین مرتبہ عطا کرکے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے وہاں انسان کی پیدایش میں رکھی گئی کمزوریوں کہ جن کو طاقت میں تبدیل کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے تاکہ اچھائیاں پیدا کرکے ہمیشہ کے لئے طاقتور بنا رہے کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے:

اللہ سبحان و تعالٰی اکلوتا خدا چاہتا ہے کہ تم آسانی کے ساتھ اچھائی پیدا کرو اور اکلوتے خدا نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے۔

اور اچھائی پیدا کرنا انسان کی ذمہ داری قرار دیا ہے جس میں اکلوتا خدا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کرتا ہے اور برائی پیدا کرنے میں نہ صرف اکلوتے خدا کا ساتھ نہیں ہے بلکہ انسان کی انسانیت کے خلاف تباہی کی سند ہے،ارشاد ہوا ہے:

اللہ سبحان و تعالٰی اکلوتا خدا چاہتا ہے کہ تم آسانی کے ساتھ اچھائی پیدا کرو اور تم برائی پیدا کرو ایسا کبھی نہیں چاہتا ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ :

ہر ایک کا اپنا اپنا عقیدہ ہے آپ نے اس کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا ہے بلکہ اچھائیاں پیدا کرنے میں مقابلہ رکھنا ہے کیونکہ آخر میں آپ سب کو ایک ہی جگہ قیامت کے دن جمع ہونا ہے اللہ سبحان و تعالٰی اکلوتا خدا سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔

البتہ اس زندگی کے سفر میں مال و دولت کی کمائی اور جن کے لئے کماؤ، پیداوار اور مصرف کا پہیا چلانا صرف کمزور سے طاقتور، حقیقی فقیر سے حقیقی غنی بننے میں امتحان ہے۔ارشاد ہوتا ہے:

اور یہ بھی جان لو کہ تمہاری دولت اور تمہارے اولاد تمہارے لئے(اچھائی پیدا کرنے اور برائی پیدا کرنے کا) امتحان ہے۔

اس لئے مال و میراث ہو یا پیداوار اور مصرف وہ مذکورہ چار اصولوں پر ہی قائم ہونا چاہئے جس میں عدل و انصاف بنا رہے، جیسے کہ ارشاد ہوا ہے:

اور ایک دوسرے کی دولت(مال و میراث)کو ہڑپنا نہیں نہ ہی حاکموں کو رشوت دے کر برائی پیدا کرکے دوسرے کا حق کھاو جبکہ حقدار کو جانتے ہوں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .