۱ آبان ۱۴۰۳ |۱۸ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 22, 2024
News ID: 403622
22 اکتوبر 2024 - 20:16
یحییٰ السنوار

حوزہ/لمحوں پر محیط حرکت، ایک تاریخ بن جاتی ہے۔ تاریخ تکرار ہوتی رہتی ہے، اس قدر تکرار کہ سیرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور عملی نمونہ بن جاتی ہے۔

تحریر: عارف بلتستانی

حوزہ نیوز ایجنسی| لمحوں پر محیط حرکت، ایک تاریخ بن جاتی ہے۔ تاریخ تکرار ہوتی رہتی ہے، اس قدر تکرار کہ سیرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور عملی نمونہ بن جاتی ہے، وہ حرکت آنے والی نسلوں کے لیے ایک استعارہ، نشان اور علامت بن جاتی ہے۔ وہی علامت کسی ایک خاص ہدف کےلئے اصطلاح بن جاتی ہے۔ وہی اصطلاح ایک طوفان بپا کرتی ہے اور نئی نسلوں کے اندر عشق و محبت، غیرت و حمیت، شجاعت و بہادری، عزت و شرافت، عقلانیت و عدالت، استقامت و مزاحمت، حریت و آزادی اور بصیرت و دوراندیشی جیسی صفات کو جنم دیتی ہے۔ مردہ ضمیر انسانوں کو انسانیت کےلیے اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ انہیں حرکتوں میں سے حرکت، شہید یحییٰ سنوار کی شہادت سے پہلے آخری حرکت ہے۔ وہ حرکت ٹوٹی ہوئی چھڑی سے ڈرون کیمرے کی طرف حملہ کرنا ہے۔ جو آخری لمحے تک قدس کی آزادی کے لیے صف اول میں لڑتے رہے۔ اپنے سپاہیوں اور نئی نسل کے لیے قدس کی آزادی اور مقاومت کا ایک اور باب کھول کر چلے گئے۔

بیت المقدس سے غسل شہادت کے بعد تقدیس کے ساتھ نورِ پردۂ قدس پر بیٹھ کر معراج کی طرف پرواز کر گئے، کیوں کہ قدس شعار الہی ہے۔ عشق و استقامت اور حریت پسندوں کا شہر ہے۔ قدس اس جراحت کا مظہر ہے جس نے امتِ محمدی کے دل کو زخمی کیا ہے۔ یہ زخم خون کے علاوہ کسی چیز سے دھویا نہیں جا سکتا۔ خون وہی دے سکتا ہے جو آزاد، جنگ جو، دلیر، شجاع، غیرت مند، با ضمیر اور میدانِ عشق کا بے خوف سپاہی ہو۔ دین و مکتب، مذہب و مسلک، گروہ و فرقہ سے بالاتر ہو کر جہانی سوچ کے مستضعفین عالم کی حمایت میں مستکبرین عالم کے ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور جان دینے یا سر کٹانے سے نہ ڈرتا ہو۔

گروہ مستضعفین میں سے خاکی لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جو مستکبرین کے مقابلے میں طوفان بن کر مزاحمت و مقاومت کا استعارہ بنتے ہیں۔ مکتب و مسلک، دین و مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی بقا کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ کےلئے وقف کر رکھی ہے۔ شہید حسن نصر اللہ اور شہید سنوار وہ شخصیات ہیں جو مستکبرین عالم کے مقابلے میں بہادری و مزاحمت کا درخشاں چہرہ ہیں۔ جو نئی نسل کو مقاومت کا راستہ اپنے عمل سے سمجھا کر گٸے۔ حتی وہ اپنے ہاتھوں کے اشارے سے لے کر لکڑی سے دشمن کی طرف حملہ کرنے کی حرکت کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ اور سیرت کے طور پر چھوڑ گئے۔

یہ امت مسلمہ اور اس کے حکمران ہیں، جن میں غیرت و حمیت، شجاعت و دلیری، مردانگی اور حریت و آزادی نامی کوئی چیز باقی نہیں ہے بلکہ بے غیرتی، غلامی، بزدلی ان کے سر کا تاج ہے۔ جس میں سر فہرست سعودی عرب ، ترکی، مصر ، اردن اور پاکستان شامل ہیں۔ ایک طرف دشمن کو جدید ترین اسلحے فراہم کرتے تو دوسری طرف تیل فراہم کر کے دشمن کی ریڑھ کی ہڈی کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ ایک طرف دو ریاستی حل کا نعرہ لگا کر اور دوسری طرف شہدائے مقاومت کی شہادت پر خوشی کا اظہار کر کے دشمن کو حوصلہ دے رہے ہیں اور رہی سہی کسر خاموش تماشائی پوری کر دیتی ہے۔ مستضعفین کی حمایت کے بجائے مستکبرین عالم کے تلوے چاٹنے میں مصروف عمل ہے۔ یہ حرکت مسلمانیت اور انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ ہمارے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم تاریخ عالم میں کہاں اور کن کے ساتھ کھڑے ہیں؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .