تحریر: مولانا ساجد رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی | آج کے دور میں دکھاوا اور مقابلہ بازی کا رجحان معاشرے میں عام ہو چکا ہے، جس کا شکار ہر طبقے کے لوگ ہیں، چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین۔ تاہم، اس مقابلہ بازی کی دوڑ میں خواتین خصوصاً ایک دوسرے سے بہتر نظر آنے کی کوشش میں زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ معاشرتی توقعات اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا اثر ہے، جہاں ہر کوئی اپنی زندگی کے بہترین پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
خواتین پر یہ دباؤ خاص طور پر شدید ہوتا ہے، کیونکہ ان سے نہ صرف سماجی بلکہ ذاتی سطح پر بھی خوبصورتی، کامیابی، اور مثالی زندگی کی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ ایسے میں قناعت ایک نعمت کی طرح ہے جو خواتین کو اس دباؤ سے نجات دلانے میں مدد کر سکتی ہے۔ قناعت کا مطلب ہے اپنے پاس موجود وسائل اور نعمتوں پر راضی رہنا، اور دوسروں سے موازنہ کرنے کے بجائے اپنی خوشیوں اور سکون پر توجہ مرکوز کرنا۔
یہ رویہ نہ صرف ذہنی سکون اور خوداعتمادی میں اضافہ کرتا ہے، بلکہ رشتوں میں بھی افہام و تفہیم اور محبت کی فضا پیدا کرتا ہے۔ اس لیے، دکھاوا اور مقابلہ بازی کے بجائے، ہمیں اپنی حقیقی قدر کو پہچاننا چاہیے اور شکر گزاری کے ساتھ اپنی زندگی میں سکون تلاش کرنا چاہیے۔
مزید برآں، دکھاوا اور مقابلہ بازی غربت اور برکت کی کمی کی وجوہات میں بھی شامل ہیں۔ جب ہم دوسروں سے بہتر نظر آنے کے چکر میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں، تو مالی مشکلات اور تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ فضول خرچی نہ صرف برکت کے خاتمے کا سبب بنتی ہے، بلکہ ہمارے معاشی حالات پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر نہ کرنا اور بے جا اخراجات میں مبتلا ہونا برکت سے محرومی کا باعث بن سکتا ہے۔
لہٰذا، قناعت اپنانا نہ صرف ذہنی سکون کا باعث ہے، بلکہ غربت اور برکت کی کمی سے بچنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ جب ہم اپنی حیثیت کے مطابق زندگی گزاریں اور دوسروں سے موازنہ کرنے کے بجائے اپنی زندگی پر توجہ دیں، تو اللہ کی برکتیں بھی ہمارے شاملِ حال ہو جاتی ہیں۔