۱۱ آبان ۱۴۰۳ |۲۸ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Nov 1, 2024
مولانا سید ابوالاعلی مودودی  وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے

حوزہ/آج سے 55 سال پہلے 1969ء میں جب صیہونی حکومت نے مسجد اقصیٰ کو جلا کر شہید کرنے کی کوشش کی تو علامہ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک فکر انگیز تقریر کی جس میں آپ نے یہودیوں کی تاریخ، سازش اور فلسطین پر قبضے کے منصوبے پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور آخر میں اس مسئلے کے راہ حل کو دوٹوک الفاظ میں واضح کیا۔

ترتیب: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی| آج سے 55 سال پہلے 1969ء میں جب صیہونی حکومت نے مسجد اقصیٰ کو جلا کر شہید کرنے کی کوشش کی تو علامہ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک فکر انگیز تقریر کی جس میں آپ نے یہودیوں کی تاریخ، سازش اور فلسطین پر قبضے کے منصوبے پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور آخر میں اس مسئلے کے راہ حل کو دوٹوک الفاظ میں واضح کیا اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں یہودیوں کے عزائم اور ناپاک منصوبوں کو بیان کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں: "فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے جس میں ملک کے پرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں۔ اور باہر سے آئے ہوئے ان غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اور پھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس کے سوا فلسطین کا کوئی حل نہیں"۔(سانحہ اقصیٰ،ص30، علامہ مودودی)

اس کے بعد امریکہ کے موقف کے حوالے سے فرماتے ہیں: رہا امریکہ،جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کر رہاہے تو اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان اس کو صاف صاف خبردار کردیں کہ اس کی یہ روش اگر اسی طرح جاری رہی تو روئے پر ایک وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں اس کے لئے کوئی ادنیٰ درجہ کا بھی جذبہ خیر سگالی باقی رہ جائے۔اب وہ خود فیصلہ کر لے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جاناہے۔(ص31)

کسی بھی ملک کے بارے میں تجزیہ ،تحلیل یا موقف بیان کرنے سے پہلے اس کی تاریخی حیثیت، حقائق اور اصولی موقف کو جاننا ضروری ہے۔ جس کو نظر انداز کرکے یک طرفہ نکتہ تبصرہ وتجزیہ اس قوم کے ساتھ خیانت شمار ہوگی۔اس تناظر میں اگر مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب علامہ مودودی جیسے مفکر کی نظر تھی،وہ آج بھی ہمارے مفکرین وتجزیہ نگاروں سے اوجھل ہے۔ کسی بھی ملک پر اس کے قدیمی باشندوں کا حق ہے۔ چاہے وہ کسی بھی دین،مذہب یا زبان سے تعلق رکھتے ہوں۔اگر کوئی ناجائز،طاقت کے زور،سازشاور مذموم عزائم کے تحت کسی سرزمین،جائیداد یا ملک پر قبضہ کرئے تو دیگر افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس غاصب اور ظالم کے خلاف قیام کریں تاکہ مظلوم کو اپنا حق واپس مل سکے۔ یہ ایک آئینی،جمہوری،انسانی حق ہے جسے دنیا کے قوانین کے ساتھ ہر انسان کی عقل قبول کرتی ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی فلسطین کے حوالے سے یہی راہ حل پیش کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

(فلسطین کا) "منطقی راہ یہ ہے کہ جسے دنیا کے سارے بیدار ضمیر افراد اور وہ لوگ جوعصری اصولوں سے واقف ہیں،تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔وہ ہے خود فلسطینی عوام کی رائے لینا ان تمام لوگوں سے جو فلسطین سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے،البتہ وہ لوگ جو اپنی سرزمین اور اپنے گھروں کو لوٹنےپر مائل ہیں۔یہ ایک منطقی بات ہے۔یہ لوگ جو لبنان،اردن،کویت اور دیگر عرب ممالک میں سرگرداں ہیں وہ اپنے ملک اور اپنے گھر لوٹیں۔انیس سواڑتالیس (1948ء)سے قبل جو لوگ بھی فلسطین میں آباد تھے خواہ وہ مسلمان ہو،عیسائی ہوں یا یہودی،سب کی خواہش معلوم کی جائے۔یہ لوگ ایک ریفرنڈم میں شرکت کرکے فلسطینی سرزمین کے لئے حکومت تعین کریں۔یہ جمہوری عمل بھی ہے۔

ساری دنیا کے لیے جمہوریت اچھی ہے تو فلسطینی عوام کے لئے کیوں اچھی نہیں؟!

کیوں دنیا بھر کے عوام کو اپنی تقدیر اور مسقتبل کے فیصلے میں دخیل ہونے کا حق ہے اور فلسطینی عوام کو یہ حق نہیں؟!

آج فلسطین میں جو حکومت قائم ہے اس کے بارے میں کسی کوکوئی ذرہ برابر شک وشبہہ نہیں۔صیہونی امن وآشتی کے طریقے سے اقتدار میں نہیں آئے ہیں۔ کچھ تومکروفریب کے ذریعے اور کچھ دیگر اسلحے کے زور پر اقتدار میں پہنچے ہیں۔بنابریں یہ ایک مسلط کردہ حکومت ہے۔فلسطینی مجمتع ہوں،ووٹ دیں اور یہ فیصلہ کریں کہ ان کے ملک میں کیسی حکومت تشکیل پائے۔پھر ویسی حکومت قائم ہو۔انیس سواڑتالیس(1948) کے بعد سرزمین فلسطین میں آکر بسنے والوں کے بارے میں فیصلہ کیاجائے۔۔پھر وہ جوبھی فیصلہ کریں۔ اگر یہ فیصلہ کیاگیا کہ یہ لوگ یہاں باقی رہیں تو وہ باقی رہیں اور اگر فیصلہ کیا گیا کہ یہ لوگ یہاں سے واپس جائیں تو واپس جائیں۔یہ عوامی فیصلہ بھی ہوگا اور جمہوری عمل کاتقاضا بھی اس سے پورا ہوگا۔یہ انسانی حقوق کی پاسداری بھی ہوگی اور دنیا کے عصری اصولوں پر عمل آوربھی۔(مسئلہ فلسطین،آیت اللہ خامنہ،ص22)

دنیا کے بین الاقوامی قوانین،جمہوری اصولوں اور انسانی واخلاقی حدود کو نظر انداز کرکے بعض دانشوروں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دو ریاستی نظریہ پیش کرنا حقیقت سے چشم پوشی ہے۔ جو کہ مظلوم فلسطینیوں کے حق آزادی کی جدوجہد کے منافی ہے۔ اور بحیثیت مسلمان ہمیں قرآن وسیرت پیغمبر کی روشنی میں فلسطینی مظلوموں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا جو اس وقت صیہونیوں کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہزاروں بے گناہ بچے،خواتین اور عوام شہید ہورہے ہیں۔ اسرائیلی مظالم سے گھر،ہسپتال۔سکول اور دیگر تمام شہری مقامات تباہ وبرباد ہورہے ہیں۔ایسے میں مسلم امہ کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے اصولی ،منطقی،جمہوری اور عوامی نظریہ کی حمایت کے لئے آواز اٹھانی چاہیے جسے علامہ مودودی اور آیت اللہ خامنہ ای جیسی شخصیات نے مسئلہ فلسطین کے واحد راہ حل کے طور پر پیش کیا ہے جو کہ ایک مسلمہ حق ہونے کے ساتھ جمہوری اصولوں کے موافق بھی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .