تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| فلک عظمت خاندان بنی ہاشم پر طلوع نیرین صداقت سے گلشن آل عمران میں جو جشن نور برپا ہوا، ان کی فضاؤں میں عشق و شغف کے ترانے گائے گئے جہاں آستانہ مدحت سجایا گیا تو بزم ملکوتی میں لحن داؤدی کی نغمہ سرائی سنائی دی گئی، شجر تمناء حضرت آمنہ پر جو کلی مسکرائی، رحمان و رحیم مالک نے ان کو رہبرِ امن و اماں بنا کر مبعوث بہ رسالت کیا اور صلب عبد اللہ کی لاج رکھنے کے لیے ان کے مزاج کو معراج آشنا بنایا گیا، تاکہ اسری بعبدہ کی ضمیر ان کے پاکیزہ ضمیر کی قصیدہ خوانی کرے اور اسکی بازگشت پورے جسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی عکاس بن جائے، تاکہ بے ضمیروں کا شک عبدہ کی ضمیر سے شق ہو جائے۔
وہ قافلہ انسانیت کا رہنما جن کے ننہے ننہے قدموں کی آہٹ سے قیصر و کسریٰ کے چودہ منارے دھڑام سے گر پڑے جن کے وجود ذی جود کی خوشبو نے فضاؤں کو عطر زدہ کردیا جسکی رحمت صفت ذات کی آمد نے ہزاروں سال سے روشن آتش کدہ فارس کو خاموش کردیا اور اسکی ہیبت و جلالت نے دریائے ساوہ کی روانی اور بے باک موجوں کی طغیانی کے غرور و عروج کو خشکی کی وادی میں ڈھکیل دیا ان کی نام گزاری کتاب حکمت میں اسمہ احمد کے عنوان سے قیامت تک درج کردی گئی، الٰہی نمائندہ کے دنیوی رشتوں کی نفی فرمائی، ماکان محمد ابا احد من رجالکم کے ذریعہ مگر ذات واجب نے اپنے رشتہ کو محمدیت کے سانچہ میں ڈھال کر رسالت کی دستار عظمت پیشانی پر سجائی گئی، وما محمد الا رسول اور سند خاتمیت کو دست رسالت میں یوں تھمائی، ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین، جبکہ والفجر نے ان کی آنکھوں سے سفیدی لی تو واللیل نے ان کی آنکھوں کی پتلیوں کی سیاہی، مازاغ البصر نے اس کی نظروں کی نذر اتاری تو وضحاھا نے اس کی پلکوں سے کسب ضیا فرمائی، وطور سنین نے اس کے یاقوت صفت اجلے داندانوں کی تعریف و توصیف کی تو وما ینطق عن الھوی نے ان کے گلاب سخن پر تالے لگایے تو ان ھو الا وحی یوحی نے لب و رخسار پر وحی کے ترانے سجائے وحدہ لاشریک نے تجلی وحدت کے لئے شاھدا و بشیرا و نذیرا کی سند دے کر نشھد انک لرسول اللہ کی مہر سے تصدیق رسالت فرمائی اور قل کفی بااللہ کے ذریعہ اپنی وحدانیت کی دلیل قرار دی *و ان من شئی الا یسبح بحمدہ کی آیت تشنہ تعبیررہ جاتی اگر سنگریزوں نے دست مصطفیﷺ پر تسبیح تکلم کا ثبوت نہ دیا ہوتا وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمی سے اچھالی ہوئی مشت خاک نے ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم کی تصویر حقیقت صفحہ تاریخ پر رقم کردی، والقلم کی قسم سے عظمت لوح قلم کی آبرو بھی رکھی اور وما یسطرون سے حدیث قرطاس کے نوک پلک بھی سنوار دئیے، واللیل نے گیسو دراز کی گھٹاؤں کو ابر رحمت کا پرتو قرار دیا تو اذا سجی نے الجھی ہوئی زلفوں کے سلجھنے کا مژدہ سنایا، والنجم کے دامن دراز میں جبین نبوت کا عنوان چھپا دیا، واقصد فی مشیتک نے نقش قدم کو پتھروں کی صلابت پر ابھار دیا، یمشون علی الارض ھونا کا برھان اس پر قائم کیا گیا، وانذر عشرتک الاقربین نے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی تسبیح کے دانوں کو جوڑ کر قوا انفسکم واھلیکم نارا کے بھڑکتے ہوئے شعلوں سے نجات دلائی، یا ایھا النبی اتق اللہ، عبد و معبود کے محکم رشتے کی بنیاد تقویٰ پر رکھی تو قل لازواجک و بناتک کے خطاب سے دنیا پرستی کی ممانعت فرمائی۔ یطھرکم تطہیرا کے نغمے سے طہارت اہلبیت علیہم السّلام کا اعلان فرما کر قدرت نے الٰہی اور دنیاوی رشتوں میں خط فاصل کھینچ دیا، وما ارسلناک الا رحمة للعالمین کی آیت نے رحمت مکمل قرار دیا تو انگشت شہادت سے والنشق القمر کا معجزہ منصبہ شھود پر آیا جن کے جسم نازنین کو یا ایھا المدثر کی چادر نے ڈھانپا تو یاایھا المزمل نے عظمتوں کی قبا اسکے دوش پر سجائی طہ کا تاج کرم ان کے سر اقدس پر سجایا گیا، ولقد کرمنا بنی آدم کا تعویذ کرامت ان کی گردن میں آویزاں کیا گیا، تاکہ عبدیت کی سرفرازی کا آدمیت کو یقین حاصل ہو جائے، والشمس کا حسن و جمال اس کے دمکتے ہویے چہرے کا غازہ قرار دیا: والفجر ولیال عشر کا آیینہ حقیقت اسکی ذات ستودہ صفات کا عشرہ عشیر قرار دیا۔
یاسین کے لقب کے بعد انک لمن المرسلین کہہ کر ہر شاک نبوت کے منہ پر بھر پور طمانچہ لگا دیا کہ تاکیدات خمس کے بعد بھی نبوت و رسالت میں شک جہنمی ہونے کی علامت ہے۔
1 ان 2 کاف خطاب 3 لام مزحلقہ 4 من بیانیہ 5 مرسلین صیغہ جمع شخص واحد کے لئے، جبکہ لا ریب فیہ کا مژدہ بھی کافی تھا اس کی نبوت کی دلیل و برہان کے لیے، رب کریم ہمیں نبی رحمت ص اور صادق آل محمد امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے انمٹ نقوش پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
تمام عالم انسانیت کو جشنِ صادقین علیہما السّلام بہت بہت مبارک ہو!