۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
اشرف سراج گلتری

حوزہ/ جنگوں میں ہار اور جیت کو جنگی اصولوں کے ذریعے سمجھا جاتا ہے، بات اگر اسرائیل اور حماس کی جنگ کی کی جائے تو اسرائیل نے ان تمام جنگی اصولوں کو پاؤں تلے روندا ہے جن کا خیال رکھنا عالمی جنگی قوانین کے تحت ضروری ہے۔

تحریر: اشرف سراج گلتری

حوزہ نیوز ایجنسی| جنگوں میں ہار اور جیت کو جنگی اصولوں کے ذریعے سمجھا جاتا ہے، بات اگر اسرائیل اور حماس کی جنگ کی کی جائے تو اسرائیل نے ان تمام جنگی اصولوں کو پاؤں تلے روندا ہے جن کا خیال رکھنا عالمی جنگی قوانین کے تحت ضروری ہے۔ اس جنگ کو ہم اخلاقی اور انسانی اقدار کے تناظر میں دیکھیں تو اسرائیل باقاعدہ یہ جنگ ہار چکا ہے۔

اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو بالکل ٹھنڈا ہو چکا تھا اور اسرائیل اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر گریٹر اسرائیل بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا اسرائیل کی طرف سے کیے جانے والے جنگی جرائم کی وجہ سے مسئلہ فلسطین ایک مرتبہ پھر ابھر کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔

اب دنیا کے سامنے مسئلہ فلسطین ایک انسانیت کا مسئلہ بن چکا ہے۔

اسرائیل کے ان جرائم کو آزادی پسند اور انسانیت دوست اقوام کے دلوں سے نکالنے کےلئے امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو صدیاں لگ جائیں گی اور تاریخ میں جہاں پر بھی اسرائیلی مظالم کا تذکرہ ہوگا وہاں پر امریکہ کا نام بھی سر فہرست رہے گا۔

اسرائیل صرف حماس کی تنصیبات،ہتھیاروں اور افرادی قوت کو توڑتا اور حماس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرتا تو شاید عالمی طور پر اسرائیل اور امریکہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا نہ پڑتا۔

امریکہ اور اسرائیل ابھی تک حماس کی جنگی اسٹریٹجک کو تو دور کی بات ہے حماس کے جنگی طریقہء کار کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔

اسرائیل اور ان کے اتحادیوں نے دیکھا کہ جنگی اصولوں کے تحت جنگ جیتنا ان کےلئے ممکن نہیں ہے تو غزہ کی نہتی عوام اور ان کے املاک،مخصوصا تعلیم اور صحت کے مراکز پر حملے کرنا شروع کردئیے تاکہ حماس کو اپنی عوام کی طرف سے مشکلات کھڑی ہوں۔

اسرائیل اور ان کے اتحادیوں نے سمجھا تھا کہ جنگی تجاوزات کے ذریعے اس کےلئے جنگ جیتنا آسان ہوگا مگر نہ صرف جنگ جیت نہیں سکے، بلکہ اقوام عالم کے سامنے رسوا بھی ہوئےہیں۔

اسرائیل نے یہی غلطی اب حزب اللہ کے ساتھ ہونے والی جنگ میں بھی کی ہے کہ تمام تر جنگی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کررہاہے۔

اس کے باوجود آج تک نہ حماس نے جنگی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ حزب اللہ نے آج تک نہتی عوام پر میزائل اور بم برسائے ہیں۔

ایران کے وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 میں بھی جنگی اصولوں کے ایک اینچ بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی ان کے تمام میزائل فوجی ادارے اور تنصیبات کی طرف تھے۔

امریکہ اور ان کے اتحادی جو آزادی اور انسانیت کا راپ الاپتے ہیں ان کو فلسطین کی عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار کبھی سنائی نہیں دی۔

جب ہزاروں ٹن کا بارود فلسطینی عوام کے رہائشی مکانوں پر گر رہا تھا اس وقت امریکہ کی انسانیت نہیں جاگی، لیکن ایران کے کل کے حملہ کو لے کر غوغا کر رہے ہیں کہ "ایران نے200 سے زیادہ بلیسٹک میزائل اسرائیل پہ داغے ہیں جہاں عورتیں اور بچے بھی رہتے ہیں۔

ان کے انسانیت اور آزادی کے نعرے کی حقیقت یہی سے واضح ہو جاتی ہے کہ وہ انسانوں میں بھی تفریق کے قائل ہیں اسی لیے فلسطین کی ہزاروں عورتوں اور بچوں کے قتل پر خاموشی اور اسرائیل کی فضا سے گزر کر فوجی تنصیبات پر لگنے والے میزائل پروہ شور مچانے لگے ہیں۔

گویا ان کی نگاہ میں آزادی یہ ہے کہ مشرقی انسانوں کے گھر بار اجڑ جائیں تو کوئی نہیں بات،مغربی اور یورپی انسان اور ان کے مفادات محفوظ رہنے چاہئے۔

وہ اپنی اسی سابقہ پالیسی پر گامزن ہیں کہ انسانیت یعنی امریکہ کا کتا تک بھوکا نہ رہے چاہئے اس کےلئے مشرق کے انسانوں کے منہ سے نوالہ ہی چھیننا کیوں نہ پڑے اور آزادی یہ ہے کہ ہمارے گھروں کے سامنے پٹاخہ تک نہیں پھوٹنا چاہئے اس کےلئے چاہئے مشرق میں ہزاروں ڈرون،میزائل اور بم کو گیرانا کیوں نہ پڑے۔

وہ دنیا میں آزاد جینے کا حق صرف یورپی اور مغربی انسانوں کا سمجھتے ہیں۔

ان کی نگاہ میں مشرقی انسان اور مشرق کی زمین دونوں ان کےلئے تسخیر کیا گیا ہے کہ مشرق کا انسان ان کا ملازم بن کر رہے اور مشرق کی زمین کے ذخائر ان کی اقتصاد کو مضبوط کرنے کےلئے ہے۔

تسلط کی اس سوچ سے امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے دل میں رحم کا مادہ ہی ختم ہوا ہے وہ اپنے مفادات کے حصول کےلئے دیگر ممالک کی زمینوں پہ قبضہ جمانا یا انھیں ویران کرنا،ہزاروں، لاکھوں عورتوں اور بچوں کو مار دینا بھی اپنا حق تصور کرتے ہیں۔

فلسطین کی سرزمین میں امریکہ اور یورپ کے یہودیوں کو لاکر بسانے کے پیچھے بھی ان کی یہی سوچ تھی کار بند تھی۔

انسانی معاشرے کی فلاح وبہودی کا نعرہ، انسانیت، آزادی، حریت اور غیر جانبداری کی باتیں صرف مشرقی انسان کو اپنی جال میں پھنسانے کےلئے تھیں۔

وہ انسانیت، آزادی اور غیر جانبداری اسی کو کہتے ہیں جو ان کے حق میں ہے اگر ان کے مفادات کے خلاف ہلکی سی آواز بھی اٹھاتا ہے تو ان سے جینے کا حق تک چھین لیتے ہیں حتی سوشل میڈیا میں فلسطینوں سے اظہار محبت کرنےکو بھی کمیونٹی اسٹینڈرڈ کے خلاف قرار دےکر پوسٹ کو ریمو کر دیتے ہیں۔

ان کی اس متکبرانہ اور جانبدارانہ پالیسی کو دیکھ کر خود مغرب اور یورپ کی عوام بھی فلسطین اور مقاومتی بلاک کے حق میں سڑکوں پر آئی ہوئی ہے۔

امریکہ اور یورپی عوام کی جانب سے شروع ہونے والا یہ احتجاج اس قدر موثر ثابت ہوا ہے کہ عالمی طور پر اسرائیل اور امریکہ کا جنگی مورل بلکل ڈاؤن ہوا ہے کہ شاید اس سے پہلے کسی اور ملک کا ہواہو۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ اب حق اور باطل کا معرکہ بن کر دنیاکے سامنے آئی ہے۔

اس معرکہ نے نہ صرف انسانیت کے جھوٹے اور کھولے نعرے لگانے والوں کے چہروں سے نقاب ہٹا دیا ہے بلکہ نام نہاد عرب مسلم ممالک کے نفاق کو بھی عیاں کر دیا ہے۔

کل تک سنی مسلک سے خود کو مخلص دکھانے والے عرب بادشاہ آج سنی مسلمانوں کو بچانے کے بجائے ان کے دشمن سے راہ و رسم بنائے ہوئے ہیں۔

کاش آج سعودیہ فلسطین کی مدد پہ اتنا پیسہ بھی لگا دیتا جتنا اس نے سنیوں کو شیعوں کے خلاف لڑانے کےلئے لگا چکا ہے تو فلسطین کے بچے کم از کم بھوکے نہ رہتے۔

خیر یہ جنگ بھی ختم ہوگی اور غزہ پھر سے آباد بھی ہو جائے گا، جس طرح اسرائیل اخلاقی جنگ ہار چکا ہے اور نفسیاتی طور پر بھی ہوش کھو بیٹھا ہے اسی طرح اس جنگ کا نتیجہ بھی مقاومتی بلاک کے حصے میں آئے گا۔

سوچنا ان مسلم اور غیر مسلم ممالک کو چاہیے کہ جو اسلام اور انسانیت کے راپ الاپتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .