۲۶ آذر ۱۴۰۳ |۱۴ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 16, 2024
News ID: 402828
29 ستمبر 2024 - 22:13
تصاویر / تجمع المصطفائیان (اساتید ، کارکنان و طلاب ) به مناسبت شهادت سید حسن نصرالله

حوزہ/ آخر کار سید مقاومتی حجۃ الاسلام سید حسن نصراللہ نے شہادت کا عظیم مرتبہ پالیا، جس کی تلاش انہیں برسوں سے تھی ۔یقیناً حزب اللہ اور خطے میں متحرک مقاومتی محاذ کا یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس شہادت سے وہ کمزور ہو جائیں گے، کیونکہ شخصیتوں کے مرنے سے نظریات نہیں مرتے۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| آخر کار سید مقاومتی حجۃ الاسلام سید حسن نصراللہ نے شہادت کا عظیم مرتبہ پالیا، جس کی تلاش انہیں برسوں سے تھی ۔یقیناً حزب اللہ اور خطے میں متحرک مقاومتی محاذ کا یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس شہادت سے وہ کمزور ہو جائیں گے، کیونکہ شخصیتوں کے مرنے سے نظریات نہیں مرتے۔ عباس موسوی اور شہید عماد مغنیہ کے بعد بھی دشمن نے یہ گمان کیا تھا کہ اس نے اسلامی مقاومت کی کمر توڑ دی ہے ،مگر حسن نصر اللہ نے ہمیشہ ان کے عزائم کو آگے بڑھایا اور اسلامی مقاومتی محاذ کو اتنا طاقتور بنادیا کہ استعماری طاقتوں کی نیندیں حرام کردیں ۔۱۹۹۲؁ء میں انہیں عباس موسوی کی شہادت کے بعد۳۲ سال کی عمر میں حزب اللہ کا سربراہ مقرر کیاگیا۔اس کے بعد انہوں نے مسلسل مزاحمتی کاز کی تنظیم نو اور منتشر گروہوں کو متحد کرنے کی کوشش کی ۔ان کی سربراہی میں حزب اللہ نے نئے محاذ سر کئے اور خطے کی طاقت ور تنظیم بن کر سامنے آئی ۔۲۰۰۲؁ء میں انہوں نے جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کو انخلا پر مجبور کردیا جس نے انہیں عالم اسلام میں بے پناہ مقبولیت عطا کی۔۲۰۰۴؁ء میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا اور اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے ۔۲۰۰۶؁ء میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی جو ۳۳ دنوں تک جاری رہی ۔اس جنگ میں اسرائیل کو شکست ہوئی اور حزب اللہ نے اس کو معاہدے پر مجبور کردیا، اس جنگ نے حزب اللہ کو خطے میں مزید تقویت دی اور نوجوانوں کے درمیان اس کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا۔۲۰۰۶؁ء کے بعد نوجوان بڑی تعداد میں اس کے رکن بنے اور جذبۂ شہادت نے لبنان کی سرزمین پر نئے انداز میں سراٹھایا۔

سید حسن نصراللہ کی شہادت نہ پہلی ہے اور نہ آخری ثابت ہوگی ۔استعماری طاقتوں نے مزاحمتی کاز کو کمزور کرنے کے لئے ٹارگیٹ کلنگ کا راستہ اپنایاہے جس میں خائنوں اور منافقوں نے اس کی بھرپور مدد کی ۔عراق میں جنرل سلیمانی کی شہادت سےمنافقانہ اور بزدلانہ کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔پھر محسن فخری زادہ ،اسماعیل ہانیہ ،مزاحمتی کاز کے عظیم سپاہی اور اب سید حسن نصراللہ۔سید کاقتل یقیناً دشمن کی بڑی حصول یابی ہے مگر اس بزدلانہ حملے کوفتح مبین سے تعبیر نہیں کرسکتے ۔یہ قتل بھی اسی طرح کیاگیاجس طرح جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں شہید کیاگیاتھا۔فتح مبین تو وہ ہے جو حماس نے مزاحمتی محاذ کی مدد سے غزہ میں اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں کو شکست دے کر حاصل کی ہے ۔ سید کی شہادت ہارے ہوئے دشمن کی ذہنی ونفسیاتی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے ۔دشمن بھی اس حقیقت کو بخوبی جانتاہے اس لئے اسرائیل میں جشن کاماحول نہیں بلکہ خوف وہراس کی فضا ہے ۔کیونکہ اسرائیل کو یقین ہے کہ سید کا انتقام ضرور لیاجائے گا۔اس انتقام کی نوعیت کیاہوگی یہ مزاحمتی محاذ طے کرے گا۔وہ دن دورنہیں جب ہم اسرائیل کو نابودہوتے اور استعماری طاقتوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچارہوتے ہوئے دیکھیں گے ۔

سید حسن نصراللہ مقاومتی محاذ کی روح تھے ۔ان کی ذہانت وفطانت ،شجاعت و بے باکی ،مدبرانہ حکمت عملی اور سیاسی بصیرت کے سبھی قائل تھے ۔وہ تنہا لبنان کے جوانوں کے لئے نمونۂ عمل نہیں تھے بلکہ وہ پوری دنیا کے مسلم نوجوانوں کے سینوںمیں دل بن کردھڑکتے تھے ۔خاص طورپر مسئلۂ فلسطین پر ان کی بے باک رائے اور واضح مؤقف نے انہیںملت کا محبوب بنادیاتھا۔اب ان لوگوں کے دل بھی ان کی طرف جھکنے لگے تھے جو ہمیشہ مسلکی زنجیروں میں جکڑے رہتےتھے ۔انہوں نے زندہ ضمیروں کے لئے خود کو نمونۂ عمل کے طورپر ثابت کیااور حریت پسندوں نے ان کے نقش قدم پر چل کر آزادی کا خواب اپنی آنکھوں میں سنجویاتھا ۔انہوں نے خطے میں مزاحمتی محاذ کی مضبوطی میں بھی اہم کرداراداکیا۔خاص طورپر شام اور عراق میں داعش کی شکست کے بعد ایک نیا مقاومتی محاذ وجود میں آیا جس میں ان کے مؤثر کردار کو ہرگز بھلایانہیں جاسکے گا۔حشدالشعبی ،انصاراللہ ،حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے جانبازوں کو انہوں نے بے حد متاثرکیا اور وہ ان کے فیصلوں اور شجاعانہ اقدامات کے گرویدہ رہے ۔ہزاروں نوجوان ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام دشمن طاقتوں سے لڑنے کے لئے سرسے کفن باندھ کرنکلے اور اب بھی نوجوان انہیں اپنے لئے اسوۂ حسنہ مانتے ہیں ۔سید نے ہمیشہ رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سیدعلی خامنہ ای مدظلہ العالی کو اپنا قائد تسلیم کیا ۔وہ بغیر کسی تامل کے ان کے مشوروں اور فیصلوں پر عمل کرتے تھے ۔سید نے رہبر کے مشوروں کو ہمیشہ غیب کی باتوں سے تعبیر کیا جس کے بارے میں انہوں نے متعدد بار اپنی گفتگومیں اشارہ بھی کیا۔یقیناً ان کی شہادت رہبر معظم کے لئے بھی ناقابل تلافی نقصان ہے ۔

۷ ااکتوبرطوفان الاقصیٰ کے بعد حزب اللہ نے قدس کی آزادی کے لئے حماس کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا شروع کردیاتھا۔ابتدامیں جنگ کا دائرہ غزہ تک محدود رہا ۔لبنان کی سرحدوں پر کشیدگی رہی اور جھڑپیں ہوتی رہیں ۔رفتہ رفتہ یہ جنگ غزہ سے لبنان کی سرحدوں کی طرف منتقل ہوگئی کیونکہ اسرائیل غزہ میں منہ کی کھاچکاتھا۔جس حماس کو چند دنوں میں ختم کرنے کے دعوے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہوکررہے تھے ،اس کو میدان جنگ میں شکست دینا ناممکن ہوچکاتھا ۔اس لئے کھسیانی بلّی کھمبانوچے کی مثال ،اسرائیلی فوجوں نے بے گناہ عوام ،خاص طورپر عورتوں اوربچوںپرظلم ڈھانا شروع کردیا۔اس لئے اب جنگ لبنان کی سرحدوں کی طرف منتقل ہوگئی تھی جہاں حزب اللہ نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن کا سامنا کیا۔سید حسن نصراللہ کا بارباریہ کہناکہ ہم عنقریب بیت المقدس میں نماز اداکریں گے ،دشمن کو خوف ناک کرب میں مبتلا کردیتاتھا۔دوسری طرف حوثیوں نے بحر احمر کی گذرگاہوں کو اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں پر تنگ کردیاتھا۔شام اور عراق میں موجود مزاحمتی محاذ بھی کھل کر میدان میں آچکے تھے ۔اس لئے جنگ براہ راست حزب اللہ کےساتھ شروع ہوگئی ۔گذشتہ چند ہفتوں میں اس جنگ کا دائرہ بڑھتاگیااور پھر اسرائیل نے لبنان میں موجود اپنے جاسوسوں کے ذریعہ سیدحسن نصراللہ کو شہیدکرنے کا منصوبہ بنایا۔سید کی شہادت کے بعد لبنان اور غزہ کی جنگ کا نئے مرحلے میں داخل ہوگی۔اسرائیل کو بھی یقین ہے کہ اصل جنگ اب شروع ہوگی ۔اس لئے حسن نصراللہ کی شہادت سے ٹھیک پہلے دہشت گردی کے بانی امریکہ نے ۸ ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی فوجی امداداسرائیل کے لئے منظورکی ہے ۔امریکی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں واضح طورپر کہاکہ ہم اسرائیل کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔گویاکہ امریکہ اس قتل میں براہ راست ملوث ہے جس طرح وہ جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوث تھا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ نے سید کی شہادت سے ٹھیک پہلے اسرائیل کے لئے اربوں ڈالر کی فوجی کمک کو منظوری دی ۔دوسرے ہمیں یہ بھی یادرکھناچاہیے کہ اس وقت اسرائیلی فوجیں میدان جنگ میں نہیں لڑرہی ہیں بلکہ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں سے مقابلہ ہے ۔اگر یہ جنگ تنہا اسرائیل کے ساتھ لڑی جارہی ہوتی تو ۷ اکتوبر طوفان الاقصیٰ کے چند ہفتوں بعد فیصل ہوچکی ہوتی ۔پہلے دن سے امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ برابر کا شریک رہا ہے اور مسلسل ہتھیار بھیج رہاہے ۔بعض سادہ لوح افراد جو بڑی آسانی سے بستر پر لیٹے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آخر حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی تنظیموں نے ایساکیوں کردیاویساکیوں نہیں کیا،خودفریبی کا شکارہیں ۔جولوگ میدان جنگ میں سرسے کفن باندھ کر لڑرہے ہیں کیا وہ ان تمام اندازوں اور قیاسوں سے باخبر نہیں ہیں جنکی بنیاد پر ہم بے جاتنقید کرکے اپنا دل جلاتے رہتے ہیں ۔یقیناً حماس،حزب اللہ ،حوثیوں اور دیگر مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل اور اس کے حلیفوں کو ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس نے انہیں بسمل کردیاہے ۔اسرائیل کا جتنا نقصان ہواہے وہ کبھی سامنےنہیں آئے گاکیونکہ تمام ذرائع ابلاغ پر اس کا قبضہ ہے ۔ہم تک وہی معلومات پہونچتی ہیں جو وہ پہونچنے دینا چاہتے ہیں ۔اس لئے مزاحمتی محاذ پر طنزوتنقید کےبجائے ان کی کامیابی کے لئے دعاکرتے رہئے ۔اگر کوسناہے تو ان مسلمان ملکوں کو کوسئیے جو عالم اسلام کی رہبری کا دعویٰ کرتے ہیں مگر رسمی بیان بازی اور مذمتی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھے ۔خاص طورپر ترکیہ اور سعودی عرب جیسے ملک جو اب بھی اردن اور مصر کےراستے اسرائیل کو کمک پہونچارہے ہیں ۔سید کی شہادت میں مسلمانوںکے نفاق کا بھی بڑا کردارہے ،جس کو ہرگز فراموش نہیں کیاجائے گا۔

سید حسن نصراللہ اپنے شہید ساتھیوں سے جاملے ۔یقیناً ان کا غم ناقابل برداشت ہے ۔لیکن ہمیں یہ بھی یادرکھناچاہیے کہ مزاحمتی محاذ کی مائیں بانجھ نہیں ہیں ۔ابھی ہزاروں نصراللہ ،اسماعیل ہنیہ،ابومہدی اور قاسم سلیمانی موجود ہیں جو دشمن سے لوہالیتے رہیں گے ۔بقول علامہ اقبال ؎

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .