جمعہ 3 جنوری 2025 - 07:00
سومناتھ سے سنبھل تک تہذیبی انصاف کی جنگ

حوزہ/ہندوستان میں اب مذہبی منافرت اور سماجی تقسیم پر قابوپانا ہرگز آسان نہیں رہا۔یرقانی تنظیموں نے مخصوص اکثریتی طبقے کے دل ودماغ میں اس قدر زہر بھردیاہے کہ اس کا تدارک اب ممکن نظرنہیں آتا۔گوکہ گاہے بہ گاہے ملک کی فضاکوخوشگوار بنانے کے لئے ’دکھاوے کے لئے ہی سہی‘ خوش آئند اقدامات کئے جاتے ہیں، مگر اب ان بیانات اور اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جب یہ کوشش ہونی چاہیے تھی اُس وقت زہر پاشی کی گئی اور جب زہر لوگوں کی نس نس میں اتر گیاتو اس کا تریاق تلاش کرنے کے بجائے جھوٹی تسلیاں دی جارہی ہیں۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| ہندوستان میں اب مذہبی منافرت اور سماجی تقسیم پر قابوپانا ہرگز آسان نہیں رہا۔یرقانی تنظیموں نے مخصوص اکثریتی طبقے کے دل ودماغ میں اس قدر زہر بھردیاہے کہ اس کا تدارک اب ممکن نظرنہیں آتا۔گوکہ گاہے بہ گاہے ملک کی فضاکوخوشگوار بنانے کے لئے ’دکھاوے کے لئے ہی سہی‘ خوش آئند اقدامات کئے جاتے ہیں، مگر اب ان بیانات اور اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جب یہ کوشش ہونی چاہیے تھی اُس وقت زہر پاشی کی گئی اور جب زہر لوگوں کی نس نس میں اتر گیاتو اس کا تریاق تلاش کرنے کے بجائے جھوٹی تسلیاں دی جارہی ہیں۔ موہن بھاگوت نے حال ہی میںپونے میں منعقد ایک پروگرام میں کہاتھاکہ مذہب کے نام پر پوری دنیامیں جو ظلم اور بریت کے واقعات ہوئے ان کےپیچھےمذہب کی غلط افہام و تفہیم تھی ۔مندر مسجد کےتنازعات پر انہوں نے کہاکہ رام مندر کے بعد کچھ لوگوں کو یہ لگتاہے کہ وہ نئی جگہوں پردوبارہ ایسے مسائل پیداکرکے ہندوئوں کے قائد بن سکتے ہیں ،یہ قابل قبول نہیں ہے ۔یہ لوگ سماجی ہم آہنگی کو سخت نقصان پہونچارہے ہیں ۔ہندوستان ہمیشہ سے ایک تکثیری معاشرہ رہاہے اور اب بھی ہمیں یہ دنیا کو دکھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ملک ہم آہنگی کے ساتھ ایک ساتھ رہ رہاتھا اور آگے بھی بغیر کسی پریشانی کے رہ سکتاہے۔انہوں نے مزید کہاکہ رام مندر کی تعمیر اس لئے وجود میں آئی کہ یہ ہندوئوں کی آستھاکا مسئلہ تھالیکن اب ہرروز ایک نیا معاملہ سامنے لایاجارہاہے جو سماج اور اس کی ہم آہنگی کے لئے ٹھیک نہیں ہے(اسی آستھاکے نام پر سابق جسٹس رنج گوگوئی نے بابری مسجد کا غیرمنصفانہ فیصلہ سنایاتھا)۔بھاگوت کا یہ بیان غیر متوقع تھااس لئے مسلم رہنما اور آرایس ایس نواز دانشور اس کو لے اُڑے اور انہیں خوب دادوتحسین دی۔اس سے پہلے بھاگوت نے سنگھ کارکنان کوخطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اُس وقت بھی ایسامحسوس ہواتھاکہ حالات قدرے بہتر ہوں گے ،مگر کوئی تبدیلی رونمانہیں ہوئی۔سنبھل میں سروے کے نام پر جو کچھ ہواوہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔اس کے دوسرے دن خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے سروے کے لئے عدالت میں عرضی داخل کردی گئی ۔ہندوستان کےگوش وکنار میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر زبردستی قبضے کی نفسیات پروان چڑھ رہی ہے ۔اس پر قابوپانا نہ تو آرایس ایس کے بس کی بات ہے اور نہ اب یہ حکومت کے اختیار میں ہے ۔ہندوئوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت کا زہر بھردیاگیاہے کہ اس کا تریاق تلاش کرنا آسان نہیں ۔یہ کام آزادی کے بعد منظم لایحۂ عمل کے تحت شروع ہواجس کی رہنمائی زعفرانی طاقتیں کررہی تھیں ۔ان کے اقتدار میں دخیل ہونے کے بعد یہ کام مزید آسان ہوگیا۔کچھ سالوں کی جدوجہد کے بعد اقتدار انہی طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا بن گیااورپھر نفرت اپنے شاب پر پہونچ گئی ۔مقتدر شخصیات کو’دیش کے غداروں کو گولی مارو...‘جیسے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے دیکھاگیا۔سیاسی رہنما ’علی اور بجرنگ بلی‘ کا تقابل کرکے منافرت پھیلانے لگے ۔شمشان اور قبرستان کے نعروں نے ملک کی فضا کو یکسر بدل دیا۔اس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کے مطابق ’فسادیوں کو ان کے کپڑوں ‘ سے پہچاناجانے لگا۔پولیس تو بہت پہلے جانب دار ہوچکی تھی مگر کہیں نا کہیں کچھ غیرت اور رواداری باقی تھی ،وہ بھی اب رخصت ہوتی جارہی ہے ۔سنبھل میں سروے کے نام پر جس طرح پولیس نے بے گناہوں پر گولیاں برسائیں اور نوجوانوں کابہیمانہ قتل کیااس سے پولیس کی نفرت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔رہی سہی کسر یوگی کا بلڈور پوری کردیتاہے جو آزاد ہندوستان میں زود انصافی کی علامت بن گیاہے۔

موہن بھاگوت کو یہ لگتاہے کہ وہ ایک آدھ بیان کے ذریعہ ملک کے منافرانہ ماحول کو خوشگوار بناسکتے ہیں ،یہ ان کی بھول ہے ۔اس کا اندازہ خود انہیں بھی ہوگیاہوگا۔اِدھر انہوں نے مذہبی ہم آہنگی پر گفتگوکی اُدھر ہندوتوا تحریک کے متحرک رہنما ان کی تفہیم کے لئے سامنے آجاتے ہیں ۔رام بھدراچاریہ نے بھاگوت کو ان کی حدسمجھاتے ہوئے کہاوہ ایک تنظیم کے سربراہ ہیں ،ہندومذہب کے قائد نہیں !انہوں نے تورام مندر کی تعمیر میں سنگھ کے کردار سے بھی انکارکردیا۔ہندوتوا نمائندوں نے بھاگوت کی سرزنش شروع کی تو سنگھ کے ترجمان’ آرگنائزر ‘نے اس خلاکو بھرتے ہوئے اس جنگ کو’تہذیبی انصاف جنگ‘ سے تعبیرکیاجو سومناتھ سے سنبھل تک جاری ہے ۔’تہذیبی انصاف جنگ‘ کے دوران اب مکالمے اور مفاہمت کی راہ کیسے ہموار ہوگی ؟یہ تو آرایس ایس نواز دانشور ہی بتلاسکتے ہیں۔گذشتہ کچھ سالوں سے آرایس ایس نواز دانشور یرقانی تنظیموں سے مفاہمت اور مکالمے کا راگ الاپ رہے ہیں۔انہوں نے مذہبی منافرت کو ختم کرنے اور ملک کی تشویش ناک صورت حال پر موہن بھاگوت کو متعدد خطوط لکھے ۔ہر بار انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ سنگھ کانظریہ تشدد پر مبنی نہیں ہے اور نہ وہ لوگ سنگھ سے کوئی تعلق رکھتے ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت انگیزی کرتے ہیں ۔کچھ دانشور تو مسلمانوں سے یہاں تک اصرار کرتے ہیں کہ وہ مکالمے کے لئے سبقت کریں ۔سوال یہ ہے کہ دوسراطبقہ نہ مفاہمت چاہتاہے اور نہ مکالمے کا خواہش مند ہے توپھر بین الادیان مکالمے کی راہ کیسے ہموار کی جائے؟جولوگ زعفرانی تنظیموں کے زیر سایہ مکالمے اور مفاہمت کےلئے قائم کردہ نام نہاد اداروں کے اراکین ہیں ،انہوں نے بھی عوامی سطح پر مکالمے اور مفاہمت کی کوئی نمایاں کوشش نہیں کی ۔ان کا مقصد ذاتی مفادات کے حصول سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے ۔اس کی دلیل وقف ترمیمی بل پر آرایس ایس نوازرہنمائوں اور دانشوروں کے مؤقف سے دی جاسکتی ہے ۔جوائنٹ پارلمانی کمیٹی کے سامنے بھی انہی لوگوں کو مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے پیش کیاجارہاہے جو دراصل آرایس ایس اور اس کی ذیلی شاخوں سے وابستہ ہیں ۔ملت کی نمائندگی کے مسئلے پر مسلم پرسنل لاءبورڈ اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کے کردار کو مشکوک ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔حتیٰ کہ بعض مخلص افراد اور اداروں کو بھی ملت کے درمیان بدنام کیاجارہاہے تاکہ خودساختہ قائدین اور دانشوروں سے مسلمانوں کےخلاف کام لیاجاسکے ۔وقف بورڈ میں عام طورپر انہی شاخوں سے وابستہ افراد چیئرمین اوررکن ہوتے ہیں ،اس لئے اکثرریاستوں کے وقف بورڈ وقف ترمیمی بل پر یاتوخاموش رہے یاپھر اس بل کی حمایت میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے رہے ۔خیر!مسلمانوں میں غداری اور خیانت کا یہ کوئی نیامسئلہ نہیں ہے ۔تاریخ ان کرداروں کو بھی ماضی کے خائن اور غداروں کی طرح یاد رکھے گی !

المیہ یہ ہے کہ جس طبقے کو مسلمانوں کی املاک پر قبضے کے خواب دکھلائے گئے ہیں ،وہ اب مکالمے اور مفاہمت کی باتوں پر کان کیوں دھرنے لگا ۔جنہیں یہ باور کرادیاگیاتھاکہ مسلمانووں کوان کے گھروں سے بے دخل کرکے ’سی اے ‘اور این آرسی ‘ کے ذریعہ حراستی کیمپوں میں ڈال دیاجائے گااور ان کی تمام املاک پر ہندوئوں کاقبضہ ہوگا،وہ لوگ اُس دن کی آمد کے منتظر ہیں ۔ایک بارپھر وقف ترمیمی بل کے ذریعہ انہیں یہ امید دلائی گئی تاکہ ’ہندوتوا‘ تحریک متاثر نہ ہو اوران کے ووٹ بینک میں کوئی دوسری جماعت سیندھ نہ لگاسکے ۔افلاطون نے مذہب کو افیون سے تعبیر کیاتھاجس کا نشہ دھیرے دھیرے چڑھتاہے ۔اس کے لئے مندر مسجد تنازعات کو ابھاراگیاتاکہ ہندوتواتحریک سے جڑے ہوئے لوگ اس نشہ آور فضاسے باہر نہ نکل سکیں ۔اب آئے دن مذہبی مقامات کے سروے کے لئے عدالتوں میں عرضیاں دائر کی جارہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو مزید دبایاجاسکے اور جنہیں مذہب کی افیون پلائی گئی ہے ان کے نشے کو دوآتشہ کردیاجائے ۔اس لئے اس صورت حال پر قابوپانااُتناآسان نہیں ہے جتنا بظاہر لگتاہے ۔

مذہبی مقامات کا سروے جسے ’تہذیبی انصاف جنگ‘ کا نام دیاگیاہے ،ہندوستان میں نئی تقسیم کا سبب بن رہاہے ۔یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں تھمے گاجب تک اکثریتی طبقہ مفاہمت اور مکالمے کی راہ میں پیش رفت نہیں کرے گا۔انہیں اس وہم کودل ودماغ سے نکالناہوگاکہ ہندوخطرے میں ہے ۔کیونکہ اس لحاظ سےہندوستان وہ پہلا ملک ہوگا جہاں اکثریت کو اقلیتوں سے خطرہ لاحق ہے ۔یقین جانیےہندوستان میں ہندودھرم کو اُتناہی خطرہ ہے جتنادنیا میں اسلام کو دوسرے مذاہب سے ہے ۔اگر ملک کا ہندوبیدارہوتاہے تو ہندوستان کی ترقی کی راہیں مزید استوار ہوں گی اور ’وشووگرو‘ بننے کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوسکتاہے ۔اگر ایسانہیں ہوسکاتو ہندوستان کو فاشزم اور اقلیتوں کی قتل گاہ بننے سے نہیں بچایاجاسکے گا۔یقیناًنہ ہندوایساچاہیں گے اور نہ مسلمان!

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha