تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | ہندوستان کے سیاسی اور سماجی منظرنامے پر ہندوتوا تنظیمیوں کی غنڈہ گردی کے واقعات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے تحت ماب لنچنگ کرنے والی یرقانی تنظیموں کے آلۂ کار اب عبادت گاہوں کو مسمار کرنے پر آمادہ ہیں، ہر شہر اور ہر قصبے میں ان کے گروہ موجود ہیں، نوجوانوں کو مذہبی افیون پلاکر اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ مذہبی تقاریب کے موقع پر ان کے ذریعے ماحول کو مکدر کروایا جاتا ہے۔ مسجدوں کے سامنے اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں ۔دیر تک نشے کی حالت میں ہنگامہ کرکے لوگوں کو اکسایاجاتاہے ۔مسلمانوں کے محلوں سے گذرتے ہوئے تیز آواز میں مذہبی نغمے بجائے جاتے ہیں ۔’جئے شری رام ‘ کے نعرے بلند کرنا تو عام بات ہے۔ایودھیا جیتنے اور کاشی و متھرا کی متوقع فتح کے لئے ببانگ دہل اعلان کیاجاتاہے ۔ہمارے قومی اور مذہبی تشخص پر حملے ہورہے ہیں حتیٰ کہ اب تو بسوں اور ٹرینوں میں سفر بھی محفوظ نہیں ہے ۔نامعلوم کب اور کہاں مذہبی لبادے میں ملبوس شرپسند غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنے لگ جائیں۔ایسی صورت حال میں اگر کہیں حالات کشیدہ ہوجاتے ہیں تو یک طرفہ کاروائی کرکے مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلادیاجاتاہے ۔یہ جموریت نہیں بلکہ آمریت ہے ۔سیکولر نظریے کی نہیں بلکہ فاشسٹ نظام کی بالادستی ہے ۔
ہماچل پردیش کے معروف شہر شملہ میں ’سنجولی مسجد‘ کو غیر قانونی تعمیر بتلاکر جس طرح غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیاجارہاہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اب ملک میں جمہوری قدریں پوری طرح پامال ہوچکی ہیں ۔یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کے خلاف یہ تحریک زوروشور سےجاری ہے ۔اگر ’سنجولی کی مسجد‘ غیر قانونی طورپر تعمیر کی گئی ہے تو اس پر فیصلے کے لئے عدالتیں موجود ہیں ۔لیکن عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کےبجائے ہندوتوا تنظیموں نے مسجد کو گرانے کے لئے عوامی تحریک شروع کردی ،جس سے علاقے کی صورت حال بدتر ہوگئی ۔اس مسجد کے متعلقہ افراد نے شملہ میونسپل کارپوریشن کے کمشنر سے ملاقات کرکے ایک عرض داشت بھی دی ہے جس میں کہاگیاہے کہ مسجد کی تعمیر کی جانچ قانون کے دائرے میں کروائی جائے ۔اگر مسجد کی تعمیر کو غیرقانونی پایاجاتاہے توشملہ میونسپل کارپوریشن اس کو منہدم کرنے کا مجاز ہے ۔جانچ پوری ہونے تک اس حصے کو بند رکھاجائے گاجس پر غیر قانونی ہونے کا دعویٰ کیاجارہاہے ۔یہ مناسب پیش رفت ہے لیکن کیا ہرجگہ یہی حکمت عملی کارگر ثابت ہوگی؟ دوسرا مسئلہ یہ ہےکہ اگر کسی بھی مسجد یا عبادت گاہ کو غیرقانونی طریقے سے بنایاگیاہے تو ہم اس پر عبادت کوجائز کیسے ٹھہراسکتے ہیں؟یہ قانون مسجدوں کے لئے بھی ہے،مندراور گُردوارےکےلئے بھی۔اس لئے جہاں بھی ناجائز اور غیر قانونی تعمیر ہے اس کوہٹانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔یہ مطالبہ تنہا مسجدوں اورمدرسوں سے نہ کیاجائے بلکہ مندروں کی کمیٹیاں بھی اس راہ میں پیش رفت کریں ۔اس کا آغاز لکھنؤ جیسے شہروں سے ہوناچاہیے جہاں اوقاف کی زمینوں پر جابہ جا مندربنادئیے گئے ہیں ۔اس کے لئے پہلے متعلقہ افسر وںسے ملاقات کرکے ایسی تمام ناجائز تعمیرات کی رپورٹ دینی چاہیے اور پھرکارروائی کا مطالبہ کرناچاہیے ۔عدم کارروائی کی صورت میں عدالتوں سے رجوع کرناچاہیے ۔زیادہ سے زیادہ مقدمے عدالتوں میں داخل کریں تاکہ یرقانی تنظیموںپر دبائو بنایاجاسکے ۔
شملہ میں جس طرح ہندوتوا تنظیموں نے طاقت نمائی کرکے مسجد کو گرانے کی کوشش کی اس سے بابری مسجد واقعہ کے زخم تازہ ہوگئے ۔افسوس یہ ہے کہ مسلمان اب بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہورہے ہیں ۔مسلمانوں کی وقف املاک پر جابہ جامندر بنادئیے گئے ،آخر ان کے خلاف صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں کی جاتی ؟اگر اسی طرح یرقانی تنظیموں کے شرپسندوں کی غنڈہ گردی پر خاموشی اختیارکی گئی تو صورتحال مزید ابتر ہوجائے گی ۔مسلمانوں کوچاہیے کہ ان غیر قانونی عبادت گاہوں ،سرکاری و نیم سرکاری دفاتر کے خلاف صدائے احتجاج بلندکریں جوان کی وقف املاک پر قبضہ کرکے بنائے گئے ہیں ۔اس طرح عام ہندوئوں کو بھی یہ معلوم ہوگاکہ ملک میں کتنے ایسے مندر اور سرکاری و نیم سرکاری عمارتیں ہیں جو مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہیں ۔اس کے لئے پہلے ملّی تنظیموں کو بلاتفریق مسالک ایک بڑا جلسہ منعقد کرنا چاہیے تاکہ اس مبتلابہ صورتحال کاجائزہ لیاجاسکے ۔اورہاں !ان دانشوروں کو بھی اس معاملے میں آگے آناہوگا جنہیں قیادت کا شوق چرّایا ہواہے ۔کیاان کی ذمہ داری صرف سوشل میڈیا اور اخباروںمیں بیان جاری کرنے کی حد تک ہے ؟مسلمانوںکےلئے جوہدایت نامے وہ جاری کرتے رہتے ہیں کبھی ان پر عمل بھی کرکے دکھلائیں ،تو ان کی نیت کااخلاص ثابت ہوسکے گا۔ورنہ ماب لنچنگ جیسے معاملات پر ہم نے ان کی دوراندیشی اور حکمت عملی کی ناکامی دیکھ لی ہے۔انہوں نے موہن بھاگوت سے مل کر جوگفت وشنید کی تھی اس کا نتیجہ کیاہوا؟اس لئے انہیں بھی اب ہوش کے ناخن لینے لینے کی ضرورت ہے۔آخر وقف ترمیمی بل کے خلاف انہوں نے کیا موقف اختیارکیااور مستقبل کےلئے ان کے پاس کیاحکمت عملی ہے ؟اس پر انہوں نے اب تک کوئی بات نہیں کی۔
مسلمانوں کے مسلکی انتشار اور نظریاتی اختلاف سے یرقانی تنظیمیں بخوبی واقف ہیں ۔اسی جائزے اور استفادےکےلئےمسلم راشٹریہ منچ جیسی تنظیم کو مسلمانوں کےدرمیان وجودبخشاگیا۔اس کے افراد مسلمانوں کے درمیان نفوذ پیداکرکے نوجوانوں کو متاثر کررہے ہیں اور نظریاتی اختلاف کو بڑھاوادے رہےہیں ۔مسلمانوں کے پسماندہ طبقات میں ان کااثرزیادہ دیکھاجارہاہے ۔اس لئے علماء اور ملّی تنظیموں کو اس کا سدّباب کرنا ہوگا۔خاص طورپر پسماندہ طبقات میں نفوذ پیداکرنے کے لئے ذیلی تنظیمیں قائم کی جائیں اور ان کے مسائل کوحل کرنےکی ہرممکن کوشش کی جائے ۔مسلمانوں کے سرمایہ دار اور مخیر طبقے کو بھی اس راہ میں پیش رفت کرنا ہوگی تاکہ اس سازش کو ناکام بنایاجاسکے ۔اگر ہم نے بیداری کامظاہرتے ہوئے حالات کوبدلنے کی کوشش نہیں کی تو صورتحال کو مزید بدتر ہونے سے روکا نہیں جاسکے گا۔ہم نےوقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف کا مشاہدہ بھی کرلیا۔کاغذی تنظیموں اور رسم شبیری سے دورسجادہ نشینوں کی ایک بڑی جماعت نے ،گوکہ وہ پورے ہندوستان کے سجادہ نشینوں کا نمائندہ وفد نہیں ہے ،وقف ترمیمی بل کی حمایت کااعلان کردیاہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی آراء کوہموار کرنے کافریضہ مسلم راشٹریہ منچ اور اس کی ذیلی شاخوں نے انجام دیا۔اس میں ’داراشکوہ فائونڈیشن ‘ جیسے دیگر ادارے بھی شامل ہیں جس سے مسلمانوں کے نمائندہ کہے جانےوالے دانشوراورعلماء منسلک ہیں ۔خیر!یہ کوئی بڑامسئلہ نہیں ہے ۔مسلمانوں کے مفادکےخلاف توہمیشہ مسلمانوںکی ایک جماعت نے مخالفوں اوردشمنوں کا ساتھ دیاہے ۔عام رائے ان کے خلاف ہے اس لئے ہمیں اس رائے کو اہمیت دیناہوگی ۔بہتریہی ہےکہ ہرطرح کےاختلاف کو بالائےطاق رکھ کر تمام علماء،مسلمان قائدین ،سیاسی رہنمااور دانشور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور موجودہ درپیش مسائل سے مقابلے کامناسب لایحۂ عمل تیارکریں ۔کیونکہ اب خاموش تماشائی بنے رہنےکاوقت نہیں ہے !
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔