حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شيعہ علماء اسمبلی ہندوستان نے ایک خط لکھ کر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے درخواست کی ہے کہ ہندوستان کے تباہ کن حالات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے عدل و انصاف کی مثال قائم کریں اور وطن عزیز کو ایک بار پھر سربلند کریں۔
خط کا متن حسب ذیل ہے:
بسمہ تعاليٰ
عزت مآب جناب نريندر مودي صاحب
محترم وزيراعظم ہندوستان
الحمدللہ ہمارا وطن عزيز ہندوستان، پوري دنيا ميں ايک امتيازي حيثيت کا مالک تھا اور مختلف مذاہب و اديان و مکاتب فکر کا گلدستہ مانا جاتا تھا، جہاں گوناگوں زبان و ثقافت، افکار و خيالات، مذاہب و اديان، رسم و رواج کے حامل افراد، صلح و آشتي، محبت و الفت، اتحاد و يگانگت کے ساتھ زندگي بسر کر رہے تھے۔
ليکن افسوس! ہمارے اس حسين ملک کو نہ جانے کس بد نظر کي نظر لگ گئي کہ چند دہائيوں سے ہمارا يہ پيارا وطن کچھ ملک دشمن عناصر کي شاطرانہ سازشوں کے زير اثر اپني ديرينہ روايت سے روگرداني اختيار کرتے ہوئے اختلاف و تفرقہ، نفرت و عداوت، کينہ و دشمني، حق کشي و تہمت زني، اقليت ستيزي و اکثريت نوازي کے تباہ کن راستے پر چل پڑا ہے۔
چند برسوں سے حالات اتنے تباہ کن رخ اختيار کر چکے ہيں کہ خدانخواستہ ہمارے اس خوبصورت گلدستہ کا وجود ہي خطرہ ميں نظر آنے لگا ہے۔ آج اقليتيں خصوصا سب سے بڑي اقليت، مسلمان، خوف و ہراس ميں مبتلا ہيں۔
ماب لنچنگ ايک عام معمول بن گئي ہے ايک طرف سے مسجدوں کي تعمير ميں انتظاميہ کي طرف سے طرح طرح کے روڑے اٹکائے جا رہے ہيں دوسري طرف سے کسي کھلے مقام پر نماز پڑھنے والوں کو تشدد و گرفتاري کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس ملک ميں کانوڑ ياترا کے نام پر ہفتوں کے ليے اہم شاہراہيں بند کر دي جاتي ہيں وہاں سڑکوں يا اسٹيشنوں پر مجبوري کے عالم ميں چند منٹ کي نماز پر پابندي لگائي جا رہي ہے۔ حجاب کو بہانہ بنا کر مسلمان لڑکيوں کو تعليم سے محروم کيا جا رہا ہے۔
سرکاري نوکريوں خصوصا سول سروسز ميں جس طرح مسلمانوں کا تناسب مسلسل گرتا جا رہا ہے وہ صرف افسوس ناک ہي نہيں شرمناک بھي ہے۔ تبديلي مذہب کے موہوم الزام کي پاداش ميں درجنوں علماء کو عمر قيد کي سزا، آزادي بيان و آزادي عقيدہ کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔
غريب مسلمانوں کو جہالت و افلاس، غربت و تنگدستي کے دلدل سے نکالنے کے بجائے ہماري حکومت ، وقف ترميمي بل کے ذريعے ہمارے آباؤ اجداد کي وقف کي ہوئي املاک کو بھي مسلمانوں کے ہاتھ سے چھيننے کا ناپاک منصوبہ بنا رہي ہے جس سے مسلمان مزيد ابتري کا شکار ہو جائيں گے۔
ہمارے وطن عزيز خصوصا اترپرديش ميں مسلم دشمني ميں «بلڈوزرجسٹس» کي ايک نئي ثقافت پروان چڑھ رہي ہے. مختلف بہانوں سے غريبوں کے آشيانے اجاڑے جا رہے ہيں۔
ہمارا اليکٹرانک اور پرنٹ ميڈيا جسے جمہوريت کا چوتھا ستون، عوام کي آنکھ اور کان سمجھا جاتا تھا اس کا ايک بڑا حصہ حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے انہيں توڑ مروڑ کر پيش کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہو کر جلتي پر تيل چھڑکنے کا کام انجام دے رہا ہے۔
ظلم و ستم اس حد کو پہنچ گيا ہے کہ اب بين الاقوامي اداروں اور امريکہ و کينيڈا جيسے ممالک کي بھي چيخيں بلند ہو گئي ہيں، ايران جيسا ہند دوست ملک
جس نے ہر مشکل گھڑي ميں ہندوستان کا ساتھ ديا ہے اس کے قائد و رہبر جو نہ صرف يہ کے عالم اسلام ميں بلکہ پوري مہذب دنيا ميں عزت و احترام کي نگاہ سے ديکھے جاتے ہيں ان کا بھي پيمانہ صبر لبريز ہو گيا اور غزہ و ميانمار کے ساتھ ہندوستان کا بھي نام لينے پر مجبور ہو گئے۔
ہم بڑي عاجزي کے ساتھ اپنے محترم وزيراعظم سے درخواست کرتے ہيں کہ ان تباہ کن حالات کا سنجيدگي سے جائزہ ليں حق و عدل کي ديرينہ روايت کو زندہ کرکے وطن عزيز کو ايک مرتبہ پھر سربلند کرديں ۔
اراکين مجلس خاص
شيعہ علماء اسمبلي ہندوستان
مولانا سيد محمد عسکري صاحب (دہلي)
مولانا سيد صفي حيدر صاحب (لکھنو)
مولانا غلام رسول نوري صاحب (سري نگر)
مولانا سيد شوکت عباس صاحب (ممبئي)
مولانا ممتاز علي صاحب (دہلي)
مولانا سيد منظر صادق صاحب (لکھنو)
مولانا سيد محسن تقوي صاحب (دہلي)
مولانا سيد جواد حيدر صاحب (پرياگ راج)
مولانا سيد مختار حسين جعفري صاحب (جموں)
مولانا سيد صفدر حسين زيدي صاحب (جونپور)
مولانا غلام حسين متو صاحب (سري نگر)
مولانا سيد حيدر عباس رضوي صاحب (لکھنو)
مولانا محمد حسين لطفي صاحب (کارگل)
مولانا سيد قمر حسنين صاحب(دہلي)
مولانا سيد حافظ دلاور حسين صاحب (بنگلورو)
مولانا اختر عباس جون صاحب (لکھنو)
مولانا سيد نامدار عباس صاحب (دہلي)
مولانا غلام محمد مہدي خان صاحب (چنئي)
مولانا سيد تقي رضا (تقي آغا )صاحب (حيدرآباد)
مولانا سيد محمد فياض باقر حسيني صاحب (ممبئي)
مولانا سيد غلام حسين رضوي صاحب (دہلي)
مولانا سيد قرة العين مجتبي صاحب (نوگانواں سادات)
مولانا عارف اعظمي صاحب (دہلي)
مولانا سيد عادل منظور صاحب (دہلي)
مولانا سيد پيغمبر عباس صاحب (نوگانواں سادات)