۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
استخاره

حوزہ/ مرحوم آیت اللہ کشمیری نے ایک واقعہ بیان کیا کہ نجف اشرف میں ایک خاتون تھیں جو استخارہ کرنے اور لوگوں کے ضمائر (دل کی باتیں) جاننے میں مشہور تھیں، آیت اللہ کشمیری نے خود اس خاتون سے استخارہ کروایا تاکہ سچ یا جھوٹ ہونے کا پتہ چل سکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| مرحوم آیت اللہ کشمیری نے ایک واقعہ بیان کیا کہ نجف اشرف میں ایک خاتون تھیں جو استخارہ کرنے اور لوگوں کے ضمائر (دل کی باتیں) جاننے میں مشہور تھیں، آیت اللہ کشمیری نے خود اس خاتون سے استخارہ کروایا تاکہ سچ یا جھوٹ ہونے کا پتہ چل سکے۔

آیت اللہ شب زنده دار نے ایک درس خارج کے دوران حضرت عباس علیہ السلام کی عنایت کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم آیت اللہ کشمیری نے بتایا کہ وہ قم میں رہتے تھے اور کچھ عرصہ قبل ان کا انتقال ہوا، انہوں نے کہا کہ ایک ملاقات میں انہیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ آیت اللہ کشمیری کچھ خاص محسوس کر سکتے ہیں۔

آیت اللہ کشمیری نے بتایا کہ نجف اشرف میں ایک خاتون تھیں جو استخارہ اور ضمائر کے بارے میں علم رکھتی تھیں۔ میں نے خود ان سے استخارہ کروایا اور بعد میں ان سے پوچھا کہ یہ سب کیسے جانتی ہیں؟

خاتون نے جواب دیا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دینے اور دوسری شادی کرنے کا ارادہ کیا، حالانکہ ہمارے دو بچے بھی تھے۔ ہمارے قبیلے میں طلاق کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اور ایک مطلقہ خاتون کو بے قدر سمجھا جاتا ہے، میں نے شوہر سے درخواست کی کہ وہ دوسری شادی کر لیں، مگر مجھے طلاق نہ دیں، مگر انہوں نے طلاق دے دی، جس سے میری زندگی دشوار ہو گئی۔

اس مشکل وقت میں، میں حضرت ابوالفضل العباس (ع) کی بارگاہ حاضر ہوئی اور ان سے مدد مانگی، خواب میں حضرت عباس (ع) نے مجھے فرمایا کہ تم لوگوں کے لئے استخارہ دیکھا کرو اور اس کی اجرت میں ایک خاص مقدار سے زیادہ رقم نہ لو۔

اب جب کوئی میرے پاس استخارہ کروانے آتا ہے تو اس کے دل کی بات مجھے الہام کے ذریعے معلوم ہو جاتی ہے، اور میں اسے وہی بتا دیتی ہوں۔ یہ حضرت عباس (ع) کی عنایت ہے۔

آیت اللہ شب زنده دار نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس دنیا کے پردے کے پیچھے بھی کچھ اور حقیقتیں موجود ہیں۔ میری نصیحت ہے کہ عقلی دلائل اور استدلال کے ساتھ ساتھ ان امور پر بھی غور کریں۔ جب یہ دونوں چیزیں یکجا ہوں، تو اثرات کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

حوالہ: کتاب پندهای سعادت، جلد ۲، ص ۹-۴۸

تبصرہ ارسال

You are replying to: .