حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے استخارے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ استخارہ کا مطلب ہے "بہتری طلب کرنا"۔ لیکن وہ استخارہ جو کوئی شخص بغیر سوچے سمجھے، بغیر مشورہ کیے اور بغیر معاملے کا جائزہ لیے فوراً قرآن سے کرے، اس کے بارے میں زیادہ تاکید نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ استخارہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ مخصوص دعا ہے جو "صحیفہ سجادیہ" میں موجود ہے، جو کہ برکت کا باعث ہے۔ اس دعا کے ذریعے، اگر کوئی شخص کسی کام کو کرنے کا ارادہ رکھے، جو بظاہر درست لگے، تو وہ اللہ سے خیر طلب کرے اور یوں بغیر دعا کے کام میں نہ پڑے۔ یہ ایک مؤکد اسلامی ہدایت اور سنت کا حصہ ہے۔ اس دعا کا مطلب ہے کہ بندہ اللہ سے یوں عرض کرے: "اے اللہ! میں نے اس کام پر غور کیا، یہ بظاہر مفید لگ رہا ہے اور میں اسے انجام دے رہا ہوں، لیکن مجھے اس کے انجام اور پوشیدہ پہلوؤں کا علم نہیں، لہٰذا تو میرے لیے اس میں خیر رکھ دے۔"
لیکن وہ استخارہ جو کوئی شخص کسی بھی معاملے میں پہلے سے سوچے بغیر، مشورہ کیے بغیر اور تجزیہ کیے بغیر فوراً قرآن سے کر لے، اس کی زیادہ ترغیب نہیں دی گئی۔ البتہ، اگر کوئی شخص کسی معاملے میں واقعی حیران اور پریشان ہو جائے اور اسے سمجھ نہ آئے کہ کون سا راستہ اختیار کرے، تب استخارہ کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا، اس حوالے سے تین نکات واضح ہوتے ہیں:
1. استخارے کی دعا کو فراموش نہ کیا جائے۔
2. ہر معاملے میں سوچ بچار، مشورہ، تجزیہ اور عقل سے کام لیا جائے۔
3. اگر پھر بھی شک میں مبتلا ہوں اور صحیح اور غلط کا فیصلہ نہ کر سکیں، تب قرآن سے استخارہ کیا جائے۔
آپ کا تبصرہ