حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کے زیرِ اہتمام یومِ مستضعفان جہاں کے عنوان سے ایک عظیم الشان پروگرام مسجد سید الشہداء آئی آر سی فیڈرل بی ایریا کراچی میں منعقد ہوا، جس میں بہت بڑی تعداد میں علمائے کرام نے شرکت کی۔
پروگرام کے خطیب اور مہمانِ خصوصی معروف عالم دین حجت الاسلام والمسلمین مولانا ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی تھے۔
انہوں نے کہا کہ امام مہدی علیہ السلام کو آج سفیر کی ضرورت ہے نہ محب کی، محب بہت ہیں، لیکن سفير کی کمی ہے، محب خود امام سے محبت کرے گا، لیکن سفیر دنیا میں پیغام رسانی کا کام کرےگا اور ظہور کے نصاب سے دنیا کو آگاہ کرےگا اور ظہور کے لیے مقدمہ سازی کرے گا۔
انہوں نے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ محب مہدی علیہ السّلام نہیں، بلکہ سفير مہدی ہیں، لہٰذا اپنی رسالت کو سمجھیں، آپ کی تبلیغ خدا محور اور دعوت الیٰ اللہ ہو تو لوگوں کے دلوں میں اتر جائیں گے، مبلغین یہ کوشش کریں کہ لوگوں کو دین سے آشنا کروائیں، لوگوں کے دلوں میں دین کو اتارنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا مقام بھی لوگوں کے لیے دلوں میں بلند ہو جائے گا۔
ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے دین کو پہنچانے کے لیے تین طرح کے رسول بھیجے ہیں، پہلا رسول ملائکہ سے چنا ہے اور دوسری قسم کے رسولوں کو انسانوں سے چنا ہے اور تیسرے رسول کو قرآن نے اعلان کیا الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونہ و لا یخشون احدا الا اللہ و کفی باللہ حسیبا. یعنی مبلغین دین ہیں کہ جن کو رسولِ تبلیغ کہا ہے بس علمائے کرام کی ذمہ داری، تبلیغ ہے، اس آیت میں یبلغون کہا: تبلیغ سوشل میڈیا پر ایک رسالت ہے، بعض کا خیال ہے ہمیں ریاکاری اور شہرت نہیں چائیے اسلامی مفاہیم کو ناقص سمجھنے کی وجہ سے آج ہم نقصان اٹھا رہے ہیں اور اپنی رسالت ادا نہیں کر رہے ہیں، دکھانا اور شہرت تو تبلیغ کا مقصد ہے، تاکہ لوگوں کی ہدایت ہو، ورنہ کیسے تبلیغ کریں گے؟ تبلیغ الٰہی دین کی کریں، اس کے لیے اپنے وقت کی تنظیم ضروری ہے، آیت میں علماء کی صفات میں یبلغون کہا: سوشل میڈیا پر تبلیغ یہ ریاکاری نہیں، یہ شہرت طلبی نہیں، یہ ایک ذمہ داری اور رسالت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اربوں انسانوں کو دوسرے گمراہ کررہے ہیں ہم صرف تماشا دیکھ رہے ہیں، بس اہتمام کرنا پڑے گا۔ رسولِ تبلیغ کی دوسری خصوصیات اس کی تبلیغ خدا محور ہو کسی شخص یا پارٹی کی تبلیغ نہ ہو، رسالات ہو، یہ آیت منشور روحانیت ہے، ہماری ذمہ داریاں ہمیں بتا رہی ہیں، آیت میں یخشونہ آیا؛ خوف کے بجائے خشیت کا استعمال کیا، خوف عام ہے جو کبھی مذموم ہے، کبھی ممدوح، خوف کبھی کسی کے ظلم سے بھی پیدا ہوتا ہے اما خشیت کسی کی عظمت کو دیکھ کر وجود میں پیدا ہوتی ہے۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء، آج تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، تبدیلی فقط نعرے سے نہیں آئے گی، تبدیلی عمل سے آئے گی۔تبدیلی آپ لائیں گے ہر محلے کو آپ مدرسے میں تبدیل کریں تب جاکر تبدیلی آئے گی۔
ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ مہدویت کے نظام کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، قرآن اس نظام کے غلبے کی بات کرتا ہے: ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق ليظهرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون. بشر کو بدلنے کا قانون قرآن ہے، لہٰذا اسے سمجھنا ہوگا، اب تو رمضان آرہا ہے آپ اس رمضان کو زندگی کا منفرد رمضان بنائیں! تلاوتِ قرآن کے ساتھ ساتھ فہم قرآن کا اہتمام کریں! قرآن کی مظلومیت یہ ہے کہ اس کتاب زندگی کو میتوں اور استخارہ کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے، قرآن مردوں کو زندہ کرنے کے لئے اترا ہے؛ کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا آیاتہ، تدبر اور فہم قرآن یہ ہمارا حق ہے آج ڈرایا جاتا ہے کہ تفسیر برائہ نہ ہو جائے، تدبر تفسیر نہیں، بلکہ آیتوں سے نظام زندگی کے اصول و ضوابط اور فارمولے نکالنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج 20 سال حوزات علمیہ میں رہ کر بھی قرآن سے آشنا نہیں، ہمیں مرجع نہیں، بلکہ استنباط کرنے والے مجتہد بننے کی ضرورت ہے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، 20 سال میں اجتہاد تک نہ جاسکے تو یہ منہ پر طمانچہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نظام مہدویت کے سفیر کو 8 ارب مخاطبین تک پہنچانا ہے، اس کے لیے یبلغون کا حق ادا کرنا ہوگا؛ آج تین چیزوں کی ضرورت ہے: تبلیغ میں فکر؛ آپ کی فکر صحیح ہو اور دوسروں کی صحیح فکری تربیت کریں، ورنہ منحرف فکر میں تبدیلی اور رسالت نہیں، رسولِ تبلیغ قلم کے ذریعے نظام مہدویت کو عالمی سطح پر متعارف کروا سکتا ہے؛ قلم مقدس ہے، پہلی وحی سورہ قلم کی حرمت اور تحریر کے تقدس پر ہے، لہٰذا ہاتھ میں قلم اٹھانا پڑے گا؛ رسالت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے تیسرا اہم کام بیان ہے، آج ممبروں سے لوگوں کو مشرک بنا رہے ہیں، جن کے ہاتھ میں ممبر ہے وہ مہارت رکھتے ہیں، لیکن علمی کمزوری ہے اور جن کے پاس علم ہے، ان کے پاس ممبر کے لیے مہارت نہیں، اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ بیان کو سیکھیں، ورنہ آیت اللہ محسن نجفی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول: مال امام کھانا حرام ہے۔
ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ بیان رسالت کا حصہ ہے، نظامِ طاغوت کو توڑنے کا سب سے بڑا ہتھیار بیان ہے، اسی لیے قرآن موسیٰ اور فرعون کے قصے کو بیان کرتا ہے: اذھب الی فرعون انہ طغی، موسیٰ نے فرعون کے مقابلے کے لیے اللہ سے لشکر نہیں مانگا، کیونکہ بغاوت نظام میں ہے، مقابلہ لشکر سے نہیں ہے، اس لیے ہارون کو اللہ سے مانگا، کیوں مانگا؟ ھو افصح منی لسانا، ہارون کے پاس بیان کی قدرت ہے وہ افصح ہیں، اس لیے چونکہ فرعونی نظام کو توڑنا تھا، اس کے لیے بیان چاہیے یہاں سے پتہ چلا باطل اور طاغوتی نظام توڑنے کے لیے بیان کی ضرورت ہے، بیان خود قدرت ہے، لہٰذا علمائے کرام اپنے اندر بیان کی قدرت اور مہارت کو پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
آپ کا تبصرہ