حوزہ نیوز ایجنسی؛ ضلع کرم میں ریاستی سیز فائر کے باوجود لاشوں کے گرتے رہنے کے ساتھ، یہ سوال اُبھرتا ہے کہ ایک مکمل جوابی کاروائی کے آغاز سے پہلے مقامی جنگجو گروہوں کی حکومت کی حکمرانی کے خلاف چیلنجز کو مزید کب تک برداشت کیا جائے گا؟
امدادی قافلے پر دوبارہ حملوں کی لہر، جو عینی شاہدین کے مطابق مقامی لوگوں کی طرف سے شروع کئے گئے تھے، نے خطے کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پیر کو دوپہر کے بعد، لوئر کرم میں پاراچنار جانے والے امدادی قافلہ حملے کا نشانہ بن گیا، جوابی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو دو گھنٹے تک جاری رہا، جس میں پاک فوج کا ایک جوان شہید اور سات دیگر زخمی ہو گئے؛ کچھ گھنٹوں بعد، روکے گئے ٹرکوں کو لوٹنے کی کوشش کی گئی، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی اہلکاروں اور لوٹ مار کرنے والوں کے درمیان دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں فرنٹیئر کور کے پانچ اہلکار زخمی ہوگئے۔ آخرکار، مزید کچھ گھنٹوں بعد، زخمیوں کو بچانے کے لیے بھیجی گئی ایف سی کی فوری ردعمل فورس پر ایک مقامی گورنمنٹ اسکول کے قریب گھات لگا کر حملہ کیا گیا، اس حملے میں ایف سی کے چار اہلکار شہید ہو گئے۔
ضلع کرم طویل عرصے سے حکام کے لیے انتظامی پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے، یہ فرقہ وارانہ اور نظریاتی تشدد کا گڑھ بن چکا ہے؛ پاراچنار جیسے جغرافیائی طور پر محصور علاقوں کے شہری مقامی قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کی لپیٹ میں مظلوم زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے اردگرد کے علاقوں پر قابض جنگجو گروہوں نے اسے محاصرے میں لے رکھا ہے اور ان کی شدید نفرت کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں کرتی، نہ بوڑھوں اور بیماروں کو، نہ ہی معصوم بچوں کو۔ اس محاصرے کی وجہ سے پارا چنار گزشتہ سال کے آخر سے کئی مہینوں تک خوراک، ادویات یا ایندھن سے محروم رہا۔
سال کے آغاز میں حکومت کی جانب سے جنگجو گروہوں کے درمیان سیز فائر نافذ کرنے کے بعد شروع ہونے والے امدادی قافلوں کا مقصد پارا چنار کے شہریوں کی فوری انسانی ضروریات کو پوری کرنا تھا، لیکن یہاں تک کہ ریاستی تحفظ کے باوجود، مقامی دہشت گردوں نے انہیں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔
پیر کے حملوں کا ایک پریشان کن پہلو عینی شاہدین کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ حملے مقامی مساجد کی طرف سے بھڑکائے گئے اور مقامی لوگوں کی قیادت میں کیے گئے، اسی طرح سیکیورٹی اہلکاروں (فوجی اور نیم فوجی) پر بار بار حملوں کی دیدہ دلیری بھی حیرت انگیز ہے۔
اس واقعے کو محض مقامی تنازعے کا تسلسل نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ مقامی دہشت گردوں کی ریاست کو للکارنے کی بڑھتی ہوئی جسارت کی مثال ہے، لہٰذا، ریاست کو صورتحال پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہوگا؛ اپنے اختیار کو چیلنج کرنے والے ہر عنصر کو ختم کرنا ضروری ہے۔
کرم میں اسلحہ جمع کرنے کی مہم تو جاری ہے، لیکن دہشت گرد عناصر اب بھی ریاستی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں، امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے اب زیرو ٹالرنس (صفر تحمل) کی پالیسی ہونی چاہیے، معاہدے کو برقرار رکھنے کی ذمہ دار امن کمیٹی کو تمام بدمعاشوں کو سزا دلانی چاہیے اور امن کے عمل کو کسی بھی قیمت پر خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔









آپ کا تبصرہ