جمعہ 7 مارچ 2025 - 19:39
پاراچنار: محاصرہ، ناانصافی اور حکومتی ناکامی

حوزہ/ پاراچنار کے محبِ وطن شہری طویل عرصے سے ریاستی ناانصافی اور محاصرے کا شکار ہیں۔ بنیادی ضروریات سے محروم ان معصوم عوام کو حکومت تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے، جبکہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات محض دعوؤں تک محدود ہیں۔ حکمران اپنی عیش و عشرت میں مصروف ہیں اور عوام بدترین مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

تحریر: سکندر علی ناصری

حوزہ نیوز ایجنسی| پاراچنار میں خداداد مملکتِ پاکستان کے محبِ وطن، باغیرت اور دلاور لوگ سالوں سے رہتے آئے ہیں۔ اس علاقے میں اہلِ تسنن برادران کے علاوہ اکثریت شیعہ رہائش پذیر ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان کے کچھ بیرونی دشمن عناصر کو ملک کی ترقی اور پیشرفت ہرگز گوارا نہیں، اسی لیے وہ ہمیشہ مذموم عزائم رکھتے ہیں اور مناسب مواقع پر اپنی شیطانی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی ظالمانہ کوششیں کرتے ہیں۔ انہی سازشوں میں سے ایک پاراچنار کا محاصرہ ہے۔

یہ محاصرہ صرف آج کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس سے قبل بھی یہ علاقہ مختلف ادوار میں محاصرے کا شکار رہا ہے۔ اُس وقت بھی پاکستان سے متصل سرحد بند رہی، اور یہاں کے معصوم لوگ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات ہمسایہ ملک افغانستان سے پوری کرنے پر مجبور تھے۔ مگر اس مرتبہ چاروں طرف سے ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ اس دور میں ایک پاکستانی شہری کو اپنے ہی ملک میں سفر کے لیے پہلے افغانستان کا ویزا لینا پڑتا تھا، وہاں سے گزر کر شدید مشقت کے بعد پاکستان پہنچنا ممکن ہوتا۔ پوری دنیا میں شاید ہی کوئی ترقی پذیر ملک ایسا ہو جہاں اپنے ہی ملک میں سفر کرنے کے لیے ویزا درکار ہو، مگر یہ خفت اور شرمناک صورتحال ہمارے وطنِ عزیز، ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے پاکستان میں دیکھی گئی۔

یہ امر قابلِ غور ہے کہ پاکستان، جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا تھا، وہاں ایک مسلمان فرقے کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ آئینِ پاکستان، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہر آئین اور دستور متفق ہے کہ ہر شہری کو باعزت، آزادی اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، مگر پاکستان میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔

یہاں نہ مذہبی آزادی میسر ہے، نہ شہری آزاد ہیں، نہ مسجد محفوظ ہے، نہ اسکول، نہ امام بارگاہ، نہ چرچ۔ وطنِ عزیز اس وقت انسانیت دشمن عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے، اور ملک شدید انتشار اور بدامنی کا شکار ہے۔ اربابِ اقتدار صرف حکومت کے نام پر غریب عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ وہ اقتدار کی مستی اور نشے میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ عوام کے مسائل اور مشکلات ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ وہ عوام کے پیسوں پر عیش کرتے ہیں، مگر مظلوم اور بےگناہ لوگوں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔

ملک کے کسی بھی کونے، مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، کوئی مقام اور کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ امن و امان مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ قتل و غارت گری عام ہو چکی ہے، مگر اربابِ اقتدار کو صرف اپنی جان و مال اور اپنے خاندانوں کی حفاظت کی فکر لاحق ہے۔ ملک کے عام باسیوں کی ان کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں، بلکہ وہ انہیں کیڑوں مکوڑوں سے بھی بدتر سمجھتے ہیں۔

حکومت کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے شہریوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے قافلے میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ بغیر فوجی نگرانی کے کوئی محفوظ سفر ممکن نہیں۔ پاراچنار جیسے اہم علاقے کے معصوم اور بےگناہ شہریوں تک زندگی کی بنیادی ضروریات، خوراک، غذا اور دوا پہنچانے کے لیے بھی فوجی نگرانی میں قافلے بھیجے جاتے ہیں، مگر ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہی قافلے، جو دنیا کی بہترین فوج کی نگرانی میں چلتے ہیں، انہی کے سامنے دہشت گردوں کے حملے کی زد میں آ جاتے ہیں۔

اور المیہ یہ ہے کہ نہ تو اس پر کوئی سخت نوٹس لیا جاتا ہے، نہ کوئی مؤثر کارروائی کی جاتی ہے، بلکہ حکومتی اراکین مذمتی بیان تک دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ اسمبلی میں بیٹھے بعض بےضمیر لوگ ناکہ بندی کرنے والے دہشت گردوں کو "اچھے شہری" قرار دیتے ہیں، جبکہ وہ مظلوم عوام، جو آٹھ نو ماہ سے خوراک اور ادویات سے محروم ہیں، انہیں پاکستانی شہری تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ حکومت ان سے ٹیکس ضرور وصول کرتی ہے، مگر تحفظ دینے میں ناکام ہے۔

جب ایک ملک کی قومی اسمبلی میں بیٹھے نمائندے حق و باطل، قاتل و مقتول میں فرق نہ کر سکیں، بلکہ قاتلوں کی حوصلہ افزائی کریں، تو ایسے ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اور پاکستان کو اس بدحالی تک پہنچانے کے ذمہ دار وہ حکمران ہیں، جو سات دہائیوں سے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔

لہٰذا پاکستان کو ان بدعنوان حکمرانوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتدار کے ایوانوں سے لے کر نچلی سطح تک ایک بڑی تبدیلی درکار ہے، تبھی بہتری ممکن ہے۔

حکمران عوام کے پیسوں سے تنخواہ اس لیے لیتے ہیں کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کریں، نہ کہ حملے کے وقت بےگناہ لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر خود غائب ہو جائیں اور دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے اور عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے، تو انہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے تنخواہ لینے کا بھی کوئی حق نہیں۔ یہ مراعات عوام کی خدمت کے لیے دی جاتی ہیں، نا کہ اپنی عیاشیوں کے لیے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha