جمعرات 20 فروری 2025 - 20:13
مضبوط عالم دین، مضبوط معاشرے کی ضمانت

حوزہ/معاشرہ جس تیزی سے بے راہ روی اور اخلاقی زوال کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ دین سے عملی دوری ہے؛ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، اس پیغام کو عام کرنے اور صحیح سمت میں معاشرے کی رہنمائی کرنے کا بنیادی کردار علمائے کرام ادا کرتے ہیں۔

تحریر: مولانا سید ذہین علی نجفی

حوزہ نیوز ایجنسی| معاشرہ جس تیزی سے بے راہ روی اور اخلاقی زوال کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ دین سے عملی دوری ہے؛ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، اس پیغام کو عام کرنے اور صحیح سمت میں معاشرے کی رہنمائی کرنے کا بنیادی کردار علمائے کرام ادا کرتے ہیں؛ اگر علماء کرام کو مضبوط، مستحکم اور معاشی و سماجی سہولیات سے آراستہ کیا جائے، تو ایک بہترین اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے، اسی لیے، علمائے کرام کی خدمت اور ان کے لیے سہولیات کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

علماء کسی بھی معاشرے کے فکری، روحانی اور دینی راہنما ہوتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ علماء کا مقام محض مذہبی معاملات تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک صالح اور مثالی معاشرے کے معمار بھی ہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:''علم سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں، کیونکہ علم ہی صالح معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔''(نہج البلاغہ، حکمت 113)

علماء کرام ہی وہ طبقہ ہیں جو عام لوگوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں درست رہنمائی فراہم کرتے ہیں، شریعت کے احکامات واضح کرتے ہیں اور لوگوں کے اخلاق و کردار کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر معاشرے میں ان کی حیثیت مستحکم نہ ہو، تو دین کی صحیح تبلیغ و ترویج متاثر ہو سکتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ علماء کرام کی معاشی اور سماجی حیثیت کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، جس کے باعث وہ دینی خدمات کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب دیگر شعبوں میں افراد کو ہر ممکن معاشی سہولت فراہم کی جاتی ہے، علماء کرام کے لیے بھی ایک مربوط اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے ریاست کی ممتاز دینی سماجی شخصیت مفتی کفایت حسین نقوی کی یہ سوچ قابل تحسین ہے کہ علماء کرام کی خدمات کو وسعت دینے کے لیے ایک عملی اور مؤثر منصوبہ تشکیل دیا جائے، جسے جلد ہی علماء کے فورم پر پیش کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد یہ ہوگا کہ علماء کو وہ تمام ضروری وسائل فراہم کیے جائیں جن سے وہ اپنی دینی خدمات کو بہتر انداز میں انجام دے سکیں۔

مساجد اسلام کی بنیادی درسگاہیں ہیں، جہاں سے دین کی روشنی عام ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے ہاں اکثر علماء کرام کو مساجد میں مناسب مالی تعاون حاصل نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کے لیے دین کی خدمت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔اگر مساجد کو مضبوط معاشی ادارے کے طور پر منظم کیا جائے، تو علماء کرام کے لیے مستقل آمدن کے ذرائع پیدا کیے جا سکتے ہیں، جیسے:

1. وقف فنڈز: مساجد کے لیے ایسے فنڈز مختص کیے جائیں جو صرف علماء اور خدام کے لیے ہوں۔

2. زکوٰۃ اور صدقات کا انتظام: مستحق علماء کرام کے لیے زکوٰۃ اور دیگر امدادی فنڈز قائم کیے جائیں۔

3. تعلیمی و تحقیقی وظائف: علماء کو دینی تحقیق اور تعلیم کی مزید سہولت فراہم کرنے کے لیے اسکالرشپ دیے جائیں۔

4. بیت المال کا قیام: ایک مستقل بیت المال قائم کیا جائے جو علماء کرام کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔یہ اقدامات علماء کرام کو اس قابل بنائیں گے کہ وہ دین کی تبلیغ و اشاعت پر مکمل توجہ دے سکیں، اور انہیں معاشی مسائل میں الجھنے کی ضرورت نہ پڑے۔

ماہ شعبان المعظم ایک بابرکت مہینہ ہے جو رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ بھی کہلاتا ہے۔ اس مہینے میں جہاں مستحقین کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے، وہیں ضروری ہے کہ علماء کرام کو بھی اولین ترجیح دی جائے۔

یہ وہی علماء ہیں جو رمضان میں مساجد کو آباد کرتے ہیں، لوگوں کو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے احکام سکھاتے ہیں، اور پورے معاشرے میں دین کے عملی نفاذ کے لیے محنت کرتے ہیں۔ اگر علماء کرام کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تو وہ اپنی توانائیاں بہتر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں، جس کا فائدہ پوری امت مسلمہ کو ہوگا۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایک مضبوط عالم دین ہی ایک مضبوط معاشرے کی ضمانت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ترقی کرے اور افراد دین پر کاربند رہیں، تو ہمیں علماء کرام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔علماء کی مالی، تعلیمی اور سماجی حیثیت کو مضبوط کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم علماء کی قدر کریں گے، تو وہ بہتر انداز میں دین کی تبلیغ کریں گے، جس سے معاشرے میں اصلاح آئے گی، اسلامی اقدار مستحکم ہوں گی، اور بے راہ روی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا، لہٰذا، ضروری ہے کہ مساجد میں علماء کے لیے مستقل معاشی پروگرام متعارف کروایا جائے، ان کے لیے بیت المال قائم کیا جائے، اور زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے ان کی مالی مدد کی جائے۔ یہ اقدامات صرف علماء کے لیے نہیں، بلکہ پورے اسلامی معاشرے کے استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں علماء کرام کی قدر کرنے، ان کی خدمت کو ترجیح دینے اور دین کی سچی ترویج میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha