اتوار 21 ستمبر 2025 - 17:42
عقل ہونے کے باوجود ہمیں انبیاء کی ضرورت کیوں ہے؟

حوزہ/ انسانی رہنمائی کے لیے صرف عقل کو کافی سمجھنا بظاہر منطقی لگتا ہے، لیکن جب گہری نظر ڈالی جائے تو وحی کی رہنمائی کی چھپی ہوئی ضرورتیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ انبیاء عقل کے مقابل نہیں بلکہ اس کے تسلسل میں ہیں، اور حقیقت کے راستے کی وضاحت اور رہنمائی ان ہی کے ذمے ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I آج کے فکری اور میڈیا کے ماحول میں ایک عام سوال یہ ہے کہ جب انسان کو اللہ نے عقل عطا کی ہے تو پھر انبیاء اور دین کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟

یہ سوال بظاہر سادہ لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ نہایت گہرا اور فکری پہلو رکھنے والا سوال ہے۔ اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ ہمیں عقل اور وحی کے آپس کے تعلق کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔

عقل کی حقیقت

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہاں "عقل" سے کیا مراد ہے؟

عام طور پر عقل کو صرف روزمرہ زندگی کے فیصلوں اور معیشت کے انتظام تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب بات نبوت اور دین کو قبول کرنے کی ہو تو عقل سے مراد وہ قوتِ ادراک ہے جو حقیقت کو پہچانتی اور زندگی کو صحیح سمت دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دینی اصطلاح میں اسی عقل کو "اندرونی حجت" کہا گیا ہے۔

عقل اور خداشناسی

یہ عقل ہی ہے جو انسان کو خدا کی معرفت اور آفرینش کے مقصد پر غور کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ عقل انسان کو بتاتی ہے کہ یہ کائنات اتفاق سے نہیں بنی، بلکہ کسی حکیم اور توانا خالق نے اسے پیدا کیا ہے۔ اور چونکہ خالق حکیم کبھی بے مقصد کام نہیں کرتا، اس لیے انسانی زندگی بھی ہرگز بے ہدف اور بے راہنما نہیں ہو سکتی۔

یہی عقل کہتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے سفر کے لیے ایک بیرونی رہنمائی، ایک واضح قانون اور ایک معتمد راہنما کی ضرورت ہے۔

عقل کا کمال اور وحی کی ضرورت

جب عقل اس نتیجے پر پہنچتی ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کی بعثت عقل کو محدود یا بے کار کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کی تکمیل اور رہنمائی کے لیے ہے۔

عقل ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ ہدایتِ الٰہی ضروری ہے، لیکن اس ہدایت کی تفصیلات، یعنی صحیح راستہ، مقصد، احکام اور زندگی گزارنے کا طریقہ ہمیں عقل اکیلے نہیں بتا سکتی۔ یہاں وحی اور انبیاء کی تعلیمات کی ضرورت پڑتی ہے۔

یوں سمجھیں کہ عقل ایک مسافر کی طرح ہے جو سفر کی ضرورت کو پہچانتی ہے، لیکن سفر کے لیے نقشہ، راستے کی نشاندہی اور ایک رہبر بھی چاہیے۔ اسی طرح زندگی کے سفر میں عقل کے ساتھ ساتھ دین اور انبیاء کی رہنمائی بھی لازمی ہے۔

اگر عقل کمزور ہو جائے؟

کبھی عقل غفلت، خواہشات یا کمزوری کی وجہ سے اپنی راہ بھول سکتی ہے۔ ایسے وقت میں انبیاء وہی کردار ادا کرتے ہیں جو ایک ماہر طبیب بیمار کے لیے کرتا ہے۔ وہ جہالت کے پردے ہٹاتے ہیں، غافل دلوں کو بیدار کرتے ہیں اور انسان کو وحی کی روشنی میں سیدھی راہ دکھاتے ہیں۔

عقل اور نبوت کا رشتہ

پس انبیاء عقل کے مخالف نہیں بلکہ اس کے مکمل کرنے والے ہیں۔ دین، انسان کی حقیقی ضروریات کا عقلی جواب ہے، نہ کہ کوئی زبردستی کی چیز۔

قرآن کی رہنمائی

قرآن بھی اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے: «کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنکُمْ یَتْلُوا عَلَیْکُمْ آیاتِنَا وَیُزَکِّیکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ» "جس طرح ہم نے تمہارے درمیان ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے، تمہیں پاکیزہ بناتا ہے، کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ چیزیں بتاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔" (البقرہ: 151)

نتیجہ

لہٰذا اگر کوئی شخص عقل کا صحیح استعمال کرے تو وہ خود اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ انسان کو انبیاء اور دین کی ضرورت ہے۔ انبیاء راستے کو واضح کرتے ہیں، منزل دکھاتے ہیں اور منزل تک پہنچنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔

اسی لیے کہا گیا ہے:"جو شخص نبوت کو مانتا ہے وہ دراصل عقل کی پکار پر لبیک کہتا ہے، اور جو انبیاء کو جھٹلاتا ہے وہ حقیقت میں عقل کی بات کو نہ سمجھ پایا ہے اور نہ اس کی قدر کی ہے۔"

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha