حوزہ نیوز ایجنسی اصفہان کی رپورٹ کے مطابق، شہر اصفہان کے مدرسہ حضرت فاطمہ محدثہ (س) میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن جناب حجت الاسلام مہدی اژہ ای نے "اخلاقیات اور تصوف کے نقطۂ نظر سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہلبیت علیہم السلام کا نمونہ ہونا" کے موضوع پر منعقدہ ایک اخلاقی نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا: خدا کی سب سے پہلی تخلیق کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی الہی مخلوق مانا ہے۔ دوسری طرف بعض روایات میں "نور" کی تخلیق اور بعض دوسری روایات میں "عقل" کی تخلیق کو پہلی مخلوق کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ ہم ان روایات کی جمع بندی کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کائنات کی بنیاد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہلبیت علیہم السلام کے وجود مبارک کے طفیل ہے۔
اس کے بعد انہوں نے جہانِ وجود کی تخلیق کا اظہار کرتے ہوئے انسان کی تخلیق کے انداز کا تذکرہ کیا اور کہا: خداوندمتعال تک پہنچنے کے لیے سات جہان و عالم موجود ہیں جن میں "عالَم ملکوت" کا مقام سب سے بلند ہے اور "عالَم مُلک" ان میں سب سے نیچے ہے۔ جب ایک انسان کا نطفہ عالَم مُلک میں اور ماں کے رحم میں تشکیل پاتا ہے تو تب سے ہی فضلِ الہی اس کے مسلسل شامل رہتا ہے یہاں تک کہ چار مہینے تک یہ نطفہ اس سے اعلیٰ درجہ کے وجود کے اہل ہو جاتا ہے اور جنین میں روحِ ملکوتی پھونکی جاتی ہے۔ یہ فضلِ الہی ہمیشہ اور زندگی بھر انسان کے ساتھ موجود رہتا ہے۔
حجت الاسلام مہدی اژہ ای نے انسان کی تخلیق کے ہدف و مقصد کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام کی ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "رَحِمَ اللهٌ امراءً عَلِمَ مِن أَینَ؟ فِی أَینَ؟ وَ إِلَی أَینَ؟" یعنی "خدا اس شخص پر رحم کرے جو جانتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا، کیوں آیا اور کہاں جائے گا؟"۔ اگر کوئی ان سوالوں کے جوابات سے لاتعلق رہے تو اب وہ چاہے دنیوی زندگی میں مادی لذتیں حاصل بھی کر لے تو بھی وہ حقیقی خوشبختی اور سعادتمندی کا مزہ نہیں چکھ سکے گا کیونکہ اس کا کوئی حقیقی ہدف و مقصدہی نہیں تھا۔
انہوں نے اخروی سعادت کے حصول کے لیے انسانوں کے لیے نمونہ اور رہنمائی کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت خاتم علیہم السلام تک انبیاءِ الہی کو پیدا کر کے اپنی حجت کو انسان پر تمام کر دیا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو انسان کے کمال،سعادت اور ہدایت کے لئے نمونہ بنا کر بھیجا۔ نیز خدائے تعالیٰ نے حضرت ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارک کے بعد بھی انسان کو تنہا نہیں چھوڑا اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو ان کا جانشین اور حضرت زہرا مرضیہ سلام اللہ علیہا کو ان کا پاک نسب عطا کر کے بشر کی ہدایت کا سامان فراہم کیا۔
حوزہ علمیہ کے اس استاد نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110 "کنتم خیرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنَّاسِ تَأمُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَ ..."تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو"، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: یہ آیت کریمہ دینِ اسلام کی باقی تمام ادیان پر برتری کو ظاہر کرتی ہے۔
حجت الاسلام مہدی اژہ ای نے مزید کہا: بہترین اور افضل امت ہونے سے مراد "بہترین دین اور بہترین رہبر" کا ہونا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سب سے افضل ہے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات، خداوند متعال کا سب سے اعلیٰ انتخاب اور ان کے اہل بیت علیہم السلام آخر زمانہ تک کلامِ وحی کے مفسرین اور شارحین کے طور پر ہیں لہذا مسئلہ امامت کے تسلسل کی وجہ سے دینِ اسلام پوری تاریخ میں معارفِ توحید کے لحاظ سے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رہا ہے اور اس وجہ سے دینِ اسلام سب سے مکمل دینِ الہی اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔