۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
تصاویر/ نشست تخصصی کنشگری فضای مجازی

حوزہ / آج ہمارا تنازعہ ان لوگوں سے ہے جنہوں نے اس راستے میں اپنے لیے کوئی صحیح اور درست نمونہ و مثال قائم نہیں کی ہے۔ اگر ہم تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو ہمیں سیرت ائمہ معصومین علیہم السلام میں ایک اہم مسئلہ کہ جس پر انہوں نے سنجیدگی سے کام کرنے کی تاکید کی ہے وہ سوشل نیٹ ورکنگ اور باہمی تعاون کا معاملہ رہا ہے اور تاریخ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے  خطوط کے ذریعہ پیغامِ رسالت کو مختلف لوگوں تک پہنچانا بھی سوشل نیٹ ورکنگ اور باہمی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ نیوز ایجنسی کے دفتر میں "امام حسین علیہ السلام کی عالمی عزاداری اور سوگوارۂ اشراق کی آٹھویں ورچوئل تقریب" کے عنوان پر منعقدہ ایک گول میز کانفرنس میں مذہبی کارکنوں کے درمیان نیٹ ورکنگ اور باہمی ہم آہنگی پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ جس میں ہدایت فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر حجت الاسلام مصطفیٰ اسماعیلی، مسئول سائبر اسپیس آف سراج سید پویان حسین پور اور دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم میں سائبر اسپیس کے ڈائریکٹر جنرل حجت الاسلام مرتضیٰ حاجیانی نے شرکت کی۔

اس علمی نشست میں موجود ماہرین کی گفتگو حوزہ نیوز ایجنسی کے قارئین کی خدمت میں خلاصۃً پیش کی جا رہی ہے۔

اگر علمی اور اخلاقی بنیادیں ہی کمزور ہوں گی تو معاشرہ کبھی نہیں بدلے گا

حجت الاسلام مصطفی اسماعیلی نے تاریخ اسلام اور انقلابی فضا میں نافذ شدہ نمونوں اور سائبر اسپیس میں ان کے استعمال کے بارے میں کہا: آج کے نقطۂ نظر سے نیٹ ورکنگ اور سائبر اسپیس کے سلسلہ میں بات کرنے سے پہلے ہمیں تاریخ اسلام اور انقلاب اسلامی میں موجود نمونہ جات اور ان کی تاریخی مثالوں کو تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم تقابلی نظریہ کے ساتھ اس مسئلے کے لیے موزوں نمونہ جات کو نکال سکیں۔

آج ہمارا تنازعہ ان لوگوں سے ہے جنہوں نے انقلابِ اسلامی کو سے اپنے لیے نمونہ قرار دیتے ہوئے صحیح مثال قائم نہیں کی۔ اگر ہم تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو ہمیں سیرت ائمہ معصومین علیہم السلام میں ایک اہم مسئلہ کہ جس پر انہوں نے سنجیدگی سے کام کرنے کی تاکید کی ہے وہ سوشل نیٹ ورکنگ اور باہمی تعاون کا معاملہ رہا ہے اور تاریخ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے خطوط کے ذریعہ اپنے پیغامِ رسالت کو مختلف لوگوں تک پہنچانا بھی سوشل نیٹ ورکنگ اور باہمی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

ہمیں اپنے طلباء کے لیے تاریخ کو جدید مورخین کے نقطہ نظر سے یا مقامِ معظم رہبری کی کتاب "ڈھائی سو سالہ انسان" کی نظر سے سمجھانا ضروری ہے تاکہ طلبہ محدود عمومی معلومات کے بجائے مسلمانوں کے اتحاد اور برادری کی اہمیت کو بہتر انداز سے سمجھ سکیں۔ اگر سوشل میڈیا پر نیٹ ورکنگ اور باہمی روابط کو صحیح اور درست انداز میں بیان کیا جائے تو جان لیں کہ ابتدائی سطح پر کسی بھی قسم کی باہمی مشکلات اور تنازعات باقی نہیں رہیں گی۔

ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ لوگ ہی ہیں جو نیٹ ورکنگ کی اساس و بنیاد ہیں اور انہیں اکٹھا کرنا بہت ضروری ہے۔اس کے بعد اہم نکتہ یہ ہے کہ اس نیٹ ورک میں موجود لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ لوگ ایک مشترکہ ہدف و مقصد کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں یا نہیں؟

اگر علمی اور اخلاقی بنیادیں کمزور ہوں گی تو معاشرہ کبھی بھی نہیں بدلے گا۔ آج سائبر اسپیس میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری علمی اور اخلاقی بنیادیں اچھی طرح سے مضبوط نہیں ہوئی ہیں جس کا مطلب ہے کہ سائبر اسپیس اور میڈیا میں اخلاقیات کے معاملے پر اتنا کام نہیں کیا گیا جتنا کہ ان سوشل نیٹ ورکس کو کام میں لانے کے لیے میٹنگز اور پروگرامز پر کام کیا گیا ہے۔

ان تمام قوتوں کو اکٹھا کرنا ضروری ہے۔سماجی سرگرمی خود بخود انجام پزیر ہوتی ہے۔ امام خمینی (رہ) اپنے تفکر اور اخلاق کو پیش کر کے لوگوں سے رابطہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ اس فضا کے رہبر و لیڈر میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں۔ ایک نیٹ ورک کی طاقت بھی اس شخص کے مطابق مختلف ہوا کرتی ہے۔ ایسے لوگ موجود ہیں جو تھوڑی دیر کام کرنے کے بعد اپنا ابتدائی یقین کھو دیتے ہیں لہذا ایک نیٹ ورک لیڈر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اسے ہر وقت لوگوں کی نگاہوں میں جانچا جا رہا ہے لہذا اسے اپنے رویے اور حرکات سے آگاہ ہونا چاہیے۔

سید پویان حسین پور، مسئول سائبر اسپیس آف سراج آرگنائزیشن

نیٹ ورکنگ یا نیٹ ورک سوسائٹی کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں یہاں تک کہ ہماری علمی کمیونٹی میں بھی ابھی اس طرح سے اپنا مقام نہیں بنا پایا ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہئے اور اسے اب بھی کسی تنظیم، گروہ یا جماعت کے نیٹ ورک کے طور پر سمجھا جاتا ہے حالانکہ نیٹ ورکنگ ایک مختلف نوعیت کی چیز ہے۔

دوسری طرف یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی نیا مسئلہ یا جدید چیز ہے اور ماضی میں اس کا وجود نہیں تھا کیونکہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی اجتماعی فعالیت اسی چیز پر مبنی تھی۔ انقلاب اسلامی میں بھی معاشرتی مینجمنٹ کے لیے نیٹ ورکنگ اور نیٹ ورکنگ ٹولز موجود ہیں جو آج کے معاشروں کے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔

مسجد کو سیاسی، عسکری اور سماجی شعبوں میں معاشرے کے نظم و نسق کے لیے اس نیٹ ورک میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔ انقلاب سے پہلے معاشرتی تعاون ایک محلے کی بنیاد پر ہوتا تھا اور لوگوں کی جائے پناہ مسجد ہوا کرتی تھی لیکن انقلاب کے بعد جوں جوں نیٹ ورکنگ میں وسعت آتی گئی اسی طرح اس چیز میں رفتہ رفتہ کمی آتی گئی۔

جب ہم نیٹ ورک کے بارے میں بات کرتے ہیں تو یعنی ہم لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکیلے مواصلات سے کوئی بھی نیٹ ورک نہیں بن سکتا بلکہ ایک محور کے ارد گرد لوگوں کے درمیان جو عمل ہوتا ہے وہ نیٹ ورک کی اصل بنیاد ہوا کرتا ہے۔

حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کا اتحاد اس طریقہ کار کا ہدف و مقصد نہیں تھا بلکہ باہمی تعاون کے سلسلہ میں ایک روش کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہم نے یونیورسٹی کو اس کے قریب لانے کی کوشش کی تاکہ جب تک حوزہ اپنی سابقہ راہ وروش پر واپس نہ آجائے یونیورسٹی کو اس کے نزدیک لایا جا سکے۔ نیٹ ورکنگ کا بھی یہی حال ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے جو مذہبی منطق و فکر کے حامل اور علماء دین کے قریب ہوں۔

اگر ہم اس مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں جہاں سے امام خمینی (رح) نے انقلابی تحریک شروع کی تھی اور عالم اسلام کی طرف بڑھنا شروع کریں تو ہمیں ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جس میں حاکمیت کا خصوصی کام اس مرحلے پر خود کو ثابت کرنا ہوگا۔

انہوں نے شہید آوینی کو میڈیا کے میدان میں سب سے زیادہ یاد کئے جانے والے افراد میں سے ایک کے طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا: "میڈیا کے میدان میں شہید آوینی کے سب سے زیادہ پائیدار اور یادگار رہنے کی ایک وجہان کا اپنے کام میں اخلاص تھا۔

حجت الاسلام مرتضیٰ حاجیانی اگر ہم مواصلات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ انسانوں کے درمیان ہمیشہ سے مختلف اقسام رہی ہیں اور یہ انسانی ضروریات کے لحاظ سے روز بروز رشد بھی کرتی رہی ہیں۔

آج کی فضا تنظیموں اور پیرامیڈیکلز کے انتظام سے دور ہوتی جا رہی ہے کیونکہ معاشرے کی ضروریات اب ان تنظیموں سے پوری نہیں ہوتیں۔ آج انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا تک ہماری رسائی بہت آسان ہو گئی ہے اس لیے لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان تنظیموں پر انحصار نہیں کرتے ہیں۔

یہ چیز مواصلاتی و ارتباطی دنیا میں انسان کے اس مقام تک پہنچنے کا نتیجہ ہے جو آج اپنی تیز ترین حالت تک پہنچ چکا ہے اور اس بحران میں جو چیز طاقت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے وہ انسانی ارتباطات ہیں۔

اگر ہمارے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کو قید میں رکھا گیا یا جلاوطن کیا گیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ تاکہ اس کے ذریعہ ان کا دوسروں سے رابطہ ختم کیا جا سکے کیونکہ اس ارتباطی طاقت کے وجود کے ساتھ کسی دوسری قدرت یا تنظیموں کی ضرورت باقی نہیں رہتی تھی۔

اگر علمی اور اخلاقی بنیادیں ہی کمزور ہوں گی تو معاشرہ کبھی نہیں بدلے گا

حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنے قیام سے دنیا تک ایک عظیم پیغام پہنچایا۔ واقعۂ عاشورا کے بعد سید الشہداء علیہ السلام کے اہل بیت کی تحقیر و تذلیل کی جاتی ہے لیکن دشمنوں کی طرف سے انہیں معاشرہ میں لے جانا ہی ان کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوا کہ جس کے سبب حقیقتِ حال کا لوگوں تک پہنچنا اور ذلت و خواری خود ان کا مقدر بننا تاریخ میں موجود ہے۔

جب رہبر معظم نیشنل نیٹ ورک کی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ ان ارتباطی اور مواصلاتی رستوں کا کنٹرول ہے جو اس وقت متنازعہ ہیں۔ نتیجے کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نیٹ ورک کمیونیکیشن یا باہمی روابط میں ان چیزوں کو مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو معصومین علیہم السلام سے دیکھی گئی ہیں۔چونکہ بعض اوقات محدود روابط بھی پیغامات کے انتقال کا باعث بنتے ہیں لہذا ہم ایک ایسی فضا فراہم کرنے کی کوشش میں ہیں جہاں مسلمانوں کے مطالبات اور ان کی حقیقی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

ہمیں ان فرصتوں اور مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے جو آج سائبر اسپیس نے ہمیں فراہم کی ہیں تاکہ لوگوں کو ان کی حقیقی ضروریات سے آگاہ کر سکیں اور ان کی باطل اور مٹ جانے والی خواہشات اور ضروریات کے بارے میں ان کے ذہنوں میں سوال ایجاد کر سکیں کہ جن کا جواب صرف دینی نیٹ ورکس اور ارتباط میں مضمر ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .