حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ کے استاد حجۃ الاسلام و المسلمین غلام رضا فیاضی نے قم "حسینیہ امام خمینی (رح)" میں سلسلۂ درس اخلاق کے تسلسل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد نقلِ احادیث کے ممنوع کئے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: اس کی اہم وجہ "غدیر " تھی چونکہ غدیر کو منافقین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امورِ خلافت پر قبضہ کرنے کی سازشیں اور منصوبہ بندی کے لئے مانع سمجھتے تھے۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین کو تلاش کرنے کے لئے مدینہ میں عیسائیوں کی موجودگی کی داستان کو بیان کرتے ہوئے کہا: امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ "میں وصی پیغمبر ہوں؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی تبیین کے ذمہ دار تھے اور آپ کی سرگرمی کے تسلسل میں، میں قرآن کے تمام مسائل کی تبیین و وضاحت کا ذمہ دار ہوں اور میری گفتگو "فصل الخطاب" ہے۔ میں مسلمانوں اور کافروں کی پیدائش اور اموات کی تعداد ، حکومت اور انقلابات کو جانتا ہوں، جو کچھ بھی تھا اور جو کچھ بھی آئندہ میں واقع ہو گا، مجھ سے پوچھو؛ میں انہیں جانتا ہوں۔ میں تمام گروہوں کے رہبران سے واقف ہوں اور تمام آسمانی کتابوں سے آگاہ ہوں اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے علم کا ایک لفظ بھی مجھ سے نہیں پنہان نہیں کیا ہے"۔
انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے فرمان کو نقل کرتے ہوئے جو کہ آٹھویں امام علیہ السلام کا بھی بیان ہے، کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بندوں سے خدا کے عہد کو توڑنے اور امت کو بے ہدایت چھوڑنے والے نہیں تھے اور ایسی شخص نہیں تھے کہ خدانخواستہ جو یہ تک نہیں جانتے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اس وقت سیوطی نامی ایک سنی عالم نے کتاب "رسالۃ الولایہ" لکھی اور غدیر کو جھوٹا کہا اور اس سنی عالم نے علامہ امینی کو کہا کہ "غدیر جھوٹ ہے"۔ علامہ امینی نے اپنی عمر وقف کر دی تمام اور سنی منابع کے ساتھ غدیر کی صداقت پر 20 جلدی کتاب لکھی۔
مجلس خبرگان (ماہرین اسمبلی) کے رکن نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کسی پیغمبر کے بارے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ انتہائی حسنِ سلوک اور ہدایت کا سامان تو کرے لیکن اپنے بعد مومنین کی ہدایت کی فکر میں ہی نہ ہو۔ ولایت فقیہ کے بارے میں بھی ایسے ہی استدلال کیا جا سکتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف غیبت میں ہوں اور یہ بیان نہ فرمایا ہو کہ میرے بعد فقیہ حاکم ہے؟
انہوں نے کہا: روایت «من عنده علم الکتاب» سے مراد امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔
حجۃ الاسلام و المسلمین فیاضی نے فخر رازی کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: فخر رازی آیتِ مبارکہ «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ» کے متعلق کہتے ہیں"یہ آیت سچوں کی عصمت کو بیان کرتی ہے چونکہ خداوندِ عالم کا فرمان ہے کہ تم سچوں کے ساتھ ہو جاؤ اور اگر وہ معصوم نہ ہوں اور ایسے افراد جو اشتباہات کے مرتکب ہوتے ہوں تو ان کی پیروی نہ کرو اور یہ ایسے میں ہے کہ صرف ایک مذہب ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ ہمارے امام معصومین (ع) ہیں اور وہ ہے شیعہ"۔
وہ امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں: امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں "میں پیغمبر (ص) کے بعد گواہ ہوں اور ان کے اور ان کی امت کے درمیان واسطہ ہوں اور میں اور میرے گیارہ فرزند اس کے وارث ہیں اور جو بھی اس کشتی کو استعمال کرے گا نجات حاصل کرے گا اور جو بھی اسے استعمال نہیں کرے گا وہ گمراہ ہو جائے گا"۔
مجلس خبرگان رہبری (ماہرین اسمبلی) کے رکن نے آخر میں کہا: رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور یقیناً ایک خاص رحمت مومن کے شاملِ حال ہوتی ہے جس کی حفاظت انتہائی ضروری ہے اور اگر وہی فرد اس کی حفاظت کر سکتا ہے جو نعمتِ ولایت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ کہ ہمارے پاس ایک امام ہے اور وہ ضرور آئے گا؛ اب جب ایک شخص اس طرف توجہ کرے گا تو ہمیشہ کوشش کرے گا کہ ان سے جدا نہ ہو۔