۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حجت الاسلام حسینی قمی

حوزہ / حرم حضرت معصومہ (س) کے خطیب نے کہا: کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ تمام فوجی کمانڈرز اور مختلف شہروں کے گورنرز تو پیغمبر خدا (ص) خود مقرر کرتے ہوں لیکن امت اسلامی کی سرپرستی جیسے سب سے اہم مسئلہ میں کسی شخص کو مقرر نہ کیا ہو اور اسے امت پر ہی چھوڑ دیا ہو؟!

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین حسینی قمی نے حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا میں موجود شبستان حضرت امام خمینی (رہ) میں خطاب کے دوران کہا: بہت سے معاملات میں جب ہم حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی بات کرتے ہیں تو اس سے متعلق آیات و روایات کا ہم جائزہ لیتے ہیں لیکن ایک عالم شخص نے تحقیق کر کے اس نکتے کو ایک دوسرے طریقے سے ثابت کیا ہے، جس کے بہت سے دلچسپ نکات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: علامہ "قاضی کراجکی" جو کہ شیخ مفید کے شاگردوں میں سے ہیں اور جو تقریباً ایک ہزار سال پہلے زندہ رہے اور اسّی سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی ولایت کے موضوع پر "التعجب" نامی ایک کتاب ہے جس کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے کہا: ولایت کے بارے میں علامہ کراجکی کی گفتگو خاص طور پر نوجوانوں کے لیے بہت موزوں ہے اور انہوں نے آیات و روایات سے ہٹ کر موضوعِ ولایت کا ایک اور انداز سے جائزہ لیا ہے اور اپنے مخاطب سے مختلف سوالات پوچھے ہیں۔

حجۃ الاسلام والمسلمین حسینی قمی نے تاکید کرتے ہوئے کہا: ولایت کا انکار کرنے والوں کو اس کتاب میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا: اس کتاب کے مندرجات کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بابرکت زندگی میں کھانے پینے، سونے، حفظانِ صحت وغیرہ کے آداب کے بارے میں بھی بہت سے امور کو بیان کیا ہے، تو آیا کیا انسانی عقل اس چیز کو قبول کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان زندگی کے آداب و امور کو تو بیان کریں لیکن اپنے بعد حکومتی نظم و نسق کو بیان نہ کیا ہو اور خدانخواستہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس اہم مسئلہ کو بھول گئے ہوں؟!

حجۃ الاسلام والمسلمین حسینی قمی نے مزید کہا: اس کتاب میں ایک اور سوال اٹھایا گیا ہے کہ قرآن اور مذہب کے مطابق وصیت کرنا ضروری اور واجب ہے، تو کیا انسانی ذہن اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کے لیے تو وصیت کو واجب کہیں لیکن وہ خود وصیت کرنا بھول گئے ہوں؟

حرم مطہر کے خطیب نے مزید کہا: تاریخ اسلام کے مطابق جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو دن کے لیے بھی مدینہ سے باہر جانا چاہتے تھے تو اپنے جانشین کا انتخاب کیا کرتے تھے، تو کیا یہ بات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مناسب ہے کہ وہ چند دنوں کے سفر کےلئے تو اپنے جانشین کا انتخاب کریں لیکن اپنے ابدی سفر کے لیے جانشین مقرر نہ کریں؟!

انہوں نے کہا: جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں حکومت قائم کی تو آپ نے بہت سے کمانڈر مقرر کیے، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ تمام فوجی کمانڈرز اور مختلف شہروں کے گورنرز تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود مقرر کرتے ہوں لیکن امت اسلامی کی سرپرستی جیسے سب سے اہم مسئلہ میں کسی شخص کو مقرر نہ کیا ہو اور اسے امت پر ہی چھوڑ دیا ہو؟!

حجۃ الاسلام والمسلمین حسینی قمی نے دعوتِ فکر دیتے ہوئے کہا: اگر ہم یہ مان لیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کو اپنا جانشین منتخب نہیں کیا اور اس کا انتخاب امت پر چھوڑ دیا اور ساری امت بھی خلیفۂ اول کے انتخاب پر متفق ہوئی تو اس وقت آیا دوسرے خلیفہ کے انتخاب میں بھی عوام کی مرضی کو مدِنظر رکھا گیا یا انہیں خلیفۂ اول نے منتخب کیا؟ تو پھر یہاں انتخاب کا معیار کیوں تبدیل کیا گیا؟ اگر خلیفہ اول کو دوسرا خلیفہ مقرر کرنے کا حق تھا تو خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حق کیوں نہیں حاصل تھا؟!

حرمِ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے خطیب نے کہا: مذکورہ بالا تمام سوالات کے ساتھ دیگر سوالات بھی اس کتاب میں اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب ان لوگوں کو دینا چاہیے جو حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا انکار کرتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .