حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نےمحرم الحرام ۱۴۴۴ھ کے عشرہ اول کی تیسری مجلس سے خطاب کیا۔ "بعثت سے ظہور تک" کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مفہوم، پیغام اور انسانی ضرورتوں کو بیان کرنے کے حوالہ سے دینِ اسلام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی جدوجہد کی تکمیل کا نام ہے. اللہ نے انبیاء علیہم السلام کے تصور کردہ آئیڈیل معاشرہ کی تشکیل کے لئے مشیت کا اعلان کیا تاکہ معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام ہو اور ظلم ناپید ہو جائے۔ اس اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بعثت سے رحلت تک کا دورانیہ اسی آسمانی پیغام کی تکمیل کا دورانیہ ہے اور نبی کریم نے اس دور میں تربیت کے حوالہ سے انسانوں کی ظرفیت کے مطابق اس پیغام کو پہنچایا اور ان کی تربیت بھی فرمائی۔ لیکن ایک بہترین معاشرہ جس کا تصور قرآن دیتا ہے وہ یہ ہے کہ زمین اللہ کے ولیوں کے سپرد کی جائے، جس کے نتیجہ میں ظلم کا خاتمہ ہو، انسان خود پر دوسروں کو ترجیح دے، اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر دوسروں کے جذبات کا خیال رکھے اور کہیں بھی نفسا نفسی کا عالم نہ ہو۔ قرآن مجید انسانیت کے اسی مستقبل کی بات کرتا ہے۔ اس مستقبل کی طرف سفر کرنے کے لئے ہمیں تمام قرآنی تعلیمات کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ اور ان کے اہلبیت، جانشینوں، پاکیزہ، وفادار، جاں نثار اور تابعدار اصحاب نے ان اقدار کو زندہ کرنے کے لئےخود مشکلات اٹھائیں لیکن ان کے احیاء میں ذرہ بھر بھی کوتاہی نہیں کی۔
علامہ امین شہیدی نے پہلی وحی کو تربیتِ انسانی کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ لفظ "اقراء" جہل سے علم تک کا سفر ہے۔ پہلی وحی بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے ذریعہ انسانی معاشرہ رفتہ رفتہ تاریکی سے روشنی اور نادانی سے دانائی کی طرف بڑھے گا۔ جب نبی کریمؐ نے تعلیم و تربیت کا باقاعدہ آغاز فرمایا تو قبائل کے سرداروں کو دی جانے والی دعوتِ ذوالعشیرہ میں انہوں نے دو چیزوں کا ذکر کیا۔ اول یہ کہ لوگوں کو بت پرستی کو ترک کر کے اللہ کی عبودیت کی طرف بلایا یعنی جہالت سے علم کی طرف آنے کی بات کی اور دوم یہ کہ وہ من حیثِ نبی خدا لوگوں کو اللہ سے جوڑنے آئے تھے۔ اللہ سے جڑنے کے لئے ضروری تھا کہ غیراللہ سے رابطہ منقطع کیا جائے۔ اسی واقعہ کو طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔ لوگوں کے جواب دینے سے قبل رسول اکرمؐ نے کہا کہ تم میں سے جو سب سے پہلے میری دعوت پر لبیک کہے گا، اسے میں اپنا جانشین اور وزیر بناؤں گا۔ یہ دعوتِ توحید کے بعد اہم ترین اعلان تھا۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریمؐ نے اچانک یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا یا ان کو پہلے سے اس بات کا علم تھا؟ نبی کریمؐ اعلم ہیں اور ہم ان کے بارے میں یہ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ کوئی کلام اور عمل بغیر ارادہ خدا کے نہیں کرتے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپؐ نے اپنی مرضی سے یہ بات نہیں کہی۔ آپؐ نے جو دو باتیں اپنی زبان مبارک سے صادر فرمائیں، اس کے پیچھے مشیتِ خدا کار فرما تھی۔ اس نکتہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ خواہ تعلیمات کتاب و صحیفہ کی شکل میں ہوں یا عبادات و اخلاقیات کی صورت میں، ایک ایسے ہادی کا ہونا ضروری ہے جو ان تعلیمات کو بعد از نبی ان کے راستے پر گامزن رکھ سکے اور ان کی حفاظت بھی کر سکے۔ رسولؐ کی پہلی دعوت اسی بات کا اعلان کرتی ہے۔ اس دعوت پر سب سے پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے لبیک کہا۔ عجیب بات ہے کہ لوگ علیؑ کو اس موقع کے حوالہ سے بچہ کہے کر ان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ قران کی نظر میں کسی شخص کی کم سنی اس کے مقام و مرتبہ میں کمی کا باعث نہیں ہوتی لیکن مادی معاشرہ میں ٹکراؤ پائے جانے کی وجہ سے اگر کسی کو بڑھانا چاہیں تو ہم اس کی عمر کو بھی اس کی فضیلت قرار دیتے ہیں اور کسی کی قدر گھٹانا چاہیں تو پھر اس کی عمر کو بھی اس کا نقص یا کمزوری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ اللہ جب کسی شخص کا انتخاب کرتا ہےتو شکمِ مادر میں بھی اس کا منصب برقرار رہتا ہے۔ اور جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو کم سن ہونے کے باوجود اس منصبِ خداوندی کی وجہ سے وہ باقی ہم نوع انسانوں سے افضل ہوتا ہے اور ان سب کا ہادی بھی بن سکتا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام اس کی واضح مثال ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت فرمایا: یا رسول اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ گویا نبیؐ نے تعلیم اور تبلیغ کی دعوت کا آغاز دو حصوں میں کیا۔ ایک حصہ کا تعلق عبودیت، تزکیہ نفس، علم و حکمت، تطہیرِ باطن اور روح کے ارتقاء سے ہے اور دوسرا حصہ ایک مربی، استاد، نگران اور ہادی سے متعلق ہے۔
آخر میں کہا اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ تمام تعلیمات اپنی جگہ لیکن جب تک ایک استاد نہ ہو یہ تعلیمات انسان کو کسی مقام تک نہیں پہنچا سکتیں۔ یہی دعوتِ ذوالعشیرہ کا اصل پیغام تھا۔ اس لیے ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے اپنی بعثت کے بعد زندگی کے تمام مراحل میں اگر کوئی کام انجام دیا تو اس کام میں علی علیہ السلام آپ کے ساتھ ہی رہے۔ چاہے کوئی بھی معرکہ،صلح، دعوت اور ہجرت ہو۔ علیؑ کا کردار نبیؐ جیسا ہی نظر آتا ہے اور لوگوں کے اذہان میں راسخ کرنے کے لئے نبی کریمؐ نے شعوری طور پر ان کا یہ کردار پیش کیا۔ اس کا آغاز اسلام کی پہلی دعوت سے ہوا۔ جو شخص بھی اللہ اور رسول کی رسالت پر ایمان لایا، نبی کریمؐ نے اس کو بتایا کہ علیؑ کون ہیں۔