حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسین مومنی نے حرم حضرت فاطمہ معصومہ(سلام اللہ علیہا) کہا: جو کچھ ہماری شریعت کہتی ہے وہ عقل و خرد کے مطابق ہے۔
انہوں نے مزید کہا: قرآن کریم اور معصومین علیھم السلام کے کلام میں بیان ہونے والے احکام عقل کے مطابق ہیں۔
حجۃ الاسلام مومنی نے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو ذر کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: دنیا سے جانے سے پہلے دنیا میں زندگی کی قدر کو پہچانو، نا دار ہونے سے پہلے اپنی ثروت کی قدر کرو، مشکلات میں گھر جانے سے پہلے فرصت کے اوقات کی قدر جانو اور بوڑھا ہونے سے پہلے اپنی جوانی کی قدر کرو۔ یہ سب موارد عقل ہی کے مطابق ہیں۔
حرم حضرت فاطمہ معصومہ(سلام اللہ علیہا) کے خطیب نے کہا: ہم اصول دین میں تقلید نہیں کر سکتے اور فروع دین میں ہمیں تقلید کرنی چاہیے اور ہم میں سے ہر ایک کے پاس اس پر دلیل ہونا چاہیے کہ کیوں اس جہان کو خدا کی ضرورت ہے؟ کیوں خدا کو ایک ہونا چاہیے؟ نبوت کیوں ضروری ہے؟ امام کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ معاد کس لئے ضروری ہے؟ اور مرنے کے بعد زندہ کیوں ہوں گے؟ وغیرہ۔ پس ہر ایک کے پاس اصول دین کے لئے دلیل ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا: ہمارا دعویٰ ہے کہ امیرالمومنین(علیہ السلام) کے سوا کوئی فرد امامت و ولایت کے لائق نہیں اور ہمارے پاس شیعہ عقائد کے دفاع میں بہت زیادہ دلیلیں موجود ہیں۔ کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یقینا اپنے بعد اپنا جانشین معین کیا ہے اور بعض افراد کا یہ کہنا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا جانشین معین نہیں کیا تھا تو یہ عقل اور سیرت و اخلاق کے خلاف ہے۔
حجت الاسلام امینی نے کہا : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت یہ تھی کہ اگر نماز جماعت قائم کرنے کے لیے مسجد نہ جا سکتے تو کسی فرد کو نماز جماعت کے لئے معین کرتے کہ وہ میری جگہ نماز جماعت قائم کرے اور اگر کبھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو لوگوں کو اپنے حال پر نہ چھوڑ کر جاتے تھے بلکہ اپنا جانشین معین کیا کرتے تھے اور پس جب ہم بعنوان رئیس العقلاء پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو عقل قبول نہیں کرتا کہ پیغمبر(ص) اس دنیا سے چلے جائیں اور اپنے جانشین معین نہ کریں!؟
انہوں نے کہا : قرآن کریم، روایت اور عقل کہتی ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے سوا کوئی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے قابل نہیں تھا۔ ابن ابی الحدید کہتا ہے: قرآن مجید کی چالیس آیتیں علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
حرم حضرت فاطمہ معصومہ(سلام اللہ علیہا) کے خطیب نے امیرالمومنین(ع) کی جانشینی کے متعلق روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو بھی امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اتباع کرے گا وہ خدا کی رحمتوں کا مستحق ٹھہرے گا۔ ایمان کا معیار علی ابن ابی طالب(علیہ الصلوۃ و السلام) ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کو برتری دو کیونکہ خداوندعالم نے ان کو برتری عطا کی ہے۔
انہوں نے کہا: یہ کلمات پیغمبر اکرم(ص) نے کسی دوسرے شخص کے بارے میں نہیں فرمائے ہیں۔
انہوں نے کہا: خداوند متعال نے شب معراج پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا: ہم نے آپ کے لئے علی ابن ابی طالب(علیہ الصلوۃ والسلام) کا انتخاب کیا ہے اور امیر المومنین کا لقب صرف علی ابن ابیطالب سے خاص ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ غدیر میں فرمایا : حرام ہے کہ علی(علیہ السلام) کے سوا یہ لقب کسی دوسرے کے لئے استعمال ہ۔
حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسین مومنی نے ولایت امیرالمومنین(علیہ السلام) پر عقلی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عقل کہتی ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین سب لوگوں سے شجاع اور بہادر ہو اور لیلۃ المبیت میں جو شخص انتہائی دلیری سے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جگہ پر سویا اور پیغمبر(ص) کی جان کو بچایا، جنگ احزاب میں عمرو ابن عبدود کو جس نے زمین پر گرایا اور جس نے دشمن کو ہرگز پیٹھ نہیں دکھائی وہ صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
حجۃ الاسلام مومنی نے آخر میں کہا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب(ع) کے متعلق فرمایا: «علی علیه السلام یرید الله فی کل حال» یعنی امیرالمومنین(ع) ہر حال میں خدا کی خوشنودی چاہتے ہیں اور پھر فرمایا: میرے بعد تم میں سے سب سے برتر علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) ہیں۔