حوزہ نیوز ایجنسی I بہت سے مسائل اور پریشانیاں انسان کی حقیقت کو نہ جاننے کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے زندگی اور کائنات کے بارے میں صحیح معرفت حاصل کرنا نہ صرف ایک عقلی ضرورت ہے بلکہ ایک مقدس کام بھی ہے، جس کی تین اہم وجوہات ہیں۔
نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنا لازم ہے:
انسان دوسرے جانداروں سے مختلف، ایک باشعور اور عقل رکھنے والی مخلوق ہے۔ یہی عقل اسے حیوانوں کی غریزی زندگی سے بلند کرتی ہے اور اسے ذمہ دار بناتی ہے۔ عقل کا ایک واضح حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے تم پر احسان کیا ہے تو تمہیں اس کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ روزمرہ زندگی میں اگر کوئی ہمیں ایک گلاس پانی بھی دے دے تو ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، کیونکہ احسان کے جواب میں بے توجہی بے ادبی، بداخلاقی یا بے انصافی کی علامت ہے۔
اب اگر ہم گہرائی سے دیکھیں: جب ہم نے آنکھ کھولی تو خود کو نعمتوں سے بھری ہوئی دنیا میں پایا۔ اپنی موجودگی سے لے کر ہوا، پانی، خوراک، عقل، محبت، خاندان، قدرت، خوبصورتی، کائنات کے منظم قوانین اور آگہی و ترقی کے مواقع سب کچھ ہمیں گھیرے ہوئے تھا۔کیا ان میں سے کوئی چیز ہم نے خود اپنے آپ کو دی ہے؟ نہیں۔ کیا ہمارے والدین اس عظیم نظام کے خالق ہیں؟ ہرگز نہیں۔
تو عقل یہ سوال اٹھاتی ہے: یہ سب نعمتیں کہاں سے آئیں؟ اگر کوئی عطا کرنے والا ہے، تو کیا ہمارے اوپر اس کے مقابلے میں کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟
ایک بیدار عقل کہتی ہے: تمہیں دیکھنا چاہیے کہ آیا نعمتوں کا کوئی مالک ہے یا نہیں۔ اگر ہے اور تم اس کے سامنے بے پرواہ رہے تو تم نے اپنے انسانی مقام کے لائق رویہ نہیں دکھایا۔
بالکل اس شخص کی طرح جو کسی گھر میں رہتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ اس کا مالک کون ہے، اور وہ اس کے تمام آسائشوں سے تو فائدہ اٹھاتا ہے لیکن یہ پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتا۔ کیا ایسا شخص ایک اچھا انسان ہے؟ عقل کہتی ہے نہیں۔
اس لیے، عقل کے اس واضح حکم پر عمل کرنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان جانچے کہ کیا اس کائنات کا کوئی باشعور اور قادر خالق ہے؟ اگر ہے، تو وہی ہمارا حقیقی نعمت دینے والا (مُنعِم) ہے اور ہمیں اسے پہچاننے اور اس کا شکر ادا کرنے کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔ یہی راستہ وہ چیز ہے جس کا دعویٰ دین کرتا ہے۔ لہٰذا، ہماری عقل ہمیں مجبور کرتی ہے کہ نعمت دینے والے کے شکر کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے دین کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کیا خالق کو پہچاننے اور اس سے تعلق قائم کرنے کا کوئی راستہ موجود ہے یا نہیں۔
اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم نعمتوں سے تو فائدہ اٹھائیں گے لیکن نعمت دینے والے کو نظر انداز کریں گے، جو جانوروں سے بھی بدتر بات ہوگی۔ کیونکہ جانور کے پاس عقل نہیں ہوتی، لیکن ہمارے پاس عقل ہے اور ہماری بے التفاتی جہالت کی بجائے غفلت یا بے اعتنائی ہوگی۔ لہٰذا عقل کہتی ہے:
اگر تم انسان ہو تو تمہیں جاننا چاہیے کہ آیا تمہارا کوئی نعمت دینے والا ہے یا نہیں۔ اور اگر ہے تو تمہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور یہ شکر صرف زبانی کلامی نہیں، بلکہ پہچان، ایمان اور عمل سے ہے۔ اور اس کا مطلب ہے دین کی تلاش۔
ممکنہ فائدہ حاصل کرنا:
عقل کا ایک اصول جو کوئی سمجھدار انسان نظر انداز نہیں کر سکتا، وہ ممکنہ فائدہ حاصل کرنا ہے۔
ہماری عقل اس طرح بنی ہے کہ اگر کسی بڑے فائدے کے حصول کا تھوڑا سا بھی امکان ہو تو وہ اسے جانچنے اور اس کے حصول کی کوشش کرنے کے قابل سمجھتی ہے۔ یہ اصول ہماری روزمرہ زندگی میں بار بار کام آتا ہے۔ مثلاً اگر کسی قرعہ اندازی میں جیتنے یا کسی سنہری موقع کو حاصل کرنے کا امکان بہت کم بھی ہو، تب بھی ہم میں سے اکثر کوشش کرتے ہیں، کیونکہ اس کا فائدہ بہت بڑا ہوتا ہے۔
اب آئیے اس اصول کو ہماری وجودیات کے سب سے اہم وسیع مسئلہ یعنی آخرت، پیغمبروں اور دین کے تناظر میں جانچتے ہیں۔
اگر ہم صرف اتنا احتمال رکھیں کہ شاید پیغمبر سچ کہہ رہے تھے، یعنی قیامت، حساب کتاب، جنت اور جہنم جیسی کوئی حقیقت ہے، تو کیا عقل یہ نہیں کہتی کہ ہم اس امکان کو نظر انداز نہ کریں؟ چاہے امکان کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، لیکن اگر ممکنہ فائدہ یا نقصان بہت بڑا ہو تو عقل یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اس معاملے کی تحقیق اور جانچ پڑتال کریں اور اس ممکنہ فائدے کو حاصل کرنے یا بڑے نقصان سے بچنے کا راستہ ڈھونڈیں۔
لہٰذا، انسان کی عملی اور سوچی سمجھی عقل اسے دین، پیغمبروں اور بالآخر حقیقت کی پہچان کے بارے میں تحقیق کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ کیونکہ یہاں ممکنہ فائدہ کی اہمیت دنیا کے کسی بھی فائدے سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ چاہے ہمیں یقین نہ بھی ہو، پھر بھی اس کی " تلاش" کی اہمیت ہے۔
ممکنہ نقصان کو دور کرنا:
عقل کا ایک واضح اور ضروری حکم ممکنہ نقصان کو دور کرنا ہے۔
انسان کی عقل ہمیشہ اسے کہتی ہے کہ اگر کہیں کسی نقصان کا امکان ہے، خاص طور پر اگر وہ نقصان اہم، بھاری اور ناقابل تلافی ہو، تو بے پرواہ نہیں رہنا چاہیے۔ سمجھدار انسان کوشش کرتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس نقصان سے دور رہے، چاہے اس کا امکان کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اس کے نتائج کی سنگینی اتنی کافی ہوتی ہے کہ عقل کو احتیاط پر مجبور کر دے۔
مثال کے طور پر، اگر کسی کو لگے کہ کھانا خراب ہے اور اس سے بیماری ہو سکتی ہے، تو اس کی عقل کہتی ہے: مت کھاؤ۔ یا اگر اسے پتہ چلے کہ جس راستے سے وہ سفر کرنے والا ہے، وہاں شاید پہاڑ سے پتھر گرنے کا یا جنگلی جانوروں کے حملے کا خطرہ ہو، تو وہ بے پرواہ نہیں رہے گا، چاہے اس نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ صرف نقصان کا یہ امکان راستہ بدلنے یا احتیاط کرنے کے لیے کافی ہے۔ عقل کہتی ہے: بھاری نقصان کو، چاہے اس کا امکان کم ہی کیوں نہ ہو، نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اب اس عقلی اصول کو انسانی اور روحانی معاملات پر لاگو کریں۔ انسان دیکھتا ہے کہ دنیا میں سینکڑوں مکتب فکر، مذاہب، فرقے اور فلسفے موجود ہیں۔ ہر گروہ کسی نہ کسی چیز کو حق سمجھتا ہے۔ ان میں، پیغمبر بھی آئے اور انہوں نے قابل غور دلائل کے ساتھ لوگوں کو خدا، آخرت، جنت اور جہنم کی طرف بلایا۔ چاہے کسی کو یقین بھی نہ ہو کہ ان کی بات درست ہے یا نہیں، صرف ان کے سچے ہونے کا امکان ہی عقل کو جگانے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ اگر وہ سچ کہہ رہے ہوں اور ہم بے پرواہ رہے تو ہم ایسے نقصان میں مبتلا ہوں گے جو نہ صرف بہت بڑا بلکہ ہمیشہ رہنے والا اور ناقابل تلافی ہے۔ یعنی جہنم۔
اس بات کو واضح کرنے کے لیے، فرض کریں کہ آپ سے پہلے کسی راستے سے گزرنے والا شخص آپ کو بتاتا ہے کہ اس راستے میں ایک خطرناک درندہ ہے، یا راستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور پہاڑ سے پتھر گر سکتے ہیں۔ کیا ایسی صورت حال میں، چاہے خطرے کا امکان کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، آپ پھر بھی بے فکر ہو کر اس راستے میں داخل ہوں گے؟ یقیناً آپ کی عقل کہے گی کہ اس امکان کو سنجیدگی سے لو، چاہے خطرے کے واقع ہونے کا امکان کم ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس کے نتائج بہت سنگین ہیں۔
ایسی صورت حال میں عقل کہتی ہے: تم اس امکان کو نظر انداز کرتے ہوئے نہیں گزر سکتے۔ تمہیں تحقیق کرنی چاہیے، جانچنا چاہیے، دلائل دیکھنے چاہئیں اور آگاہی کے ساتھ انتخاب کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر یہ امکان درست نکلا اور تم نے کچھ نہیں کیا تو تم نے نقصان کر لیا۔ اور اگر غلط بھی نکلا تو تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوگا۔
درحقیقت، عقل کا یہی سادہ سا اصول ہے جو ایک ذمہ دار اور ہوشیار انسان کو دین اور پیغمبروں کی دعوت کے سامنے بے عمل نہیں رہنے دیتا۔ ایک بے پرواہ انسان اس وقت پچھتاتا ہے جب تلافی کا کوئی موقع نہیں رہتا۔ لیکن صحیح عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ معاملہ اس نہج تک پہنچے۔
عام زندگی میں، ہم ان واقعات کے لیے احتیاط کرتے ہیں جو ہمیں چند منٹ یا چند گھنٹے کے لیے پریشان کر سکتے ہیں۔ پھر اگر بات ہمیشہ رہنے والی آخرت کی ہو اور اس میں عذاب یا محرومی کا امکان ہو، تو کیا ہمیں سو گنا زیادہ محتاط نہیں ہونا چاہیے؟ اگر عقل مشکوک کھانے سے ہونے والے چند گھنٹے کے پیٹ درد کے لیے احتیاط لازم ٹھہراتی ہے، تو ہمیشہ کے عذاب میں جانے کے امکان کے لیے یہ بے فکری کا حکم کیسے دے سکتی ہے؟
لہٰذا، انسان کی عقل بلند آواز میں کہتی ہے: جب تک تمہارے پاس دین اور انبیاء کی دعوت کو جانچنے، سمجھنے اور منتخب کرنے کا موقع ہے، تمہیں اس کے سامنے بے پرواہ نہیں رہنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ہمیشہ کے نقصان کا کوئی امکان ہو تو عقیدے میں تحقیق اور غور و فکر عقل مندانہ زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔









آپ کا تبصرہ