بدھ 3 دسمبر 2025 - 23:45
ایمان کے بغیر نیکی کا انجام / ایسے بندے کی عاقبت کیا ہو گی؟

حوزہ / بعض لوگ بہت نیکیاں تو کرتے ہیں لیکن وہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہمیں پیغمبر اور دین کی ضرورت نہیں تو ایک نیا سوال سامنے آتا ہے کہ ان نیکیوں کی بنیاد اور عاقبت کیا ہے؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کبھی انسان بہت سے نیک کام انجام دیتا ہے اور خود کو دین اور پیغمبر سے بے نیاز سمجھتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ وحی اور ہدایت کے بغیر نیکی انسان کو کس حد تک راہِ حقیقت تک پہنچا سکتی ہے؟

مقدمہ

بعض اوقات ہم ایسے افراد کو دیکھتے ہیں جو بہت زیادہ نیک اور خیراتی کام کرتے ہیں۔ کوئی ہسپتال بناتا ہے، کوئی اسکول بناتا ہے، کوئی ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ: "میں صرف خدا کو مانتا ہوں، پیغمبر اور اہل بیت کو نہیں"۔ یا بعض تو یہ تک کہتے ہیں کہ: "میں تو دین کو ہی نہیں مانتا، بس انسان دوستی کرتا ہوں"۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسا شخص عاقبت بہ خیر ہو گا؟

بحث میں جانے سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ خداوند متعال رحمان اور رحیم ہے۔ وہ کسی بھی نیک کام کو بلا اجر نہیں چھوڑتا۔ اگر کوئی دیندار نہ بھی ہو لیکن اچھا کام کرے تو خدا اسے دنیا میں ضرور اس کا بدلہ دیتا ہے چاہے مال کے ذریعہ، چاہے عزت کے ذریعہ، چاہے صحت و سکون کے ذریعہ۔

لیکن کیا یہی سارا معاملہ ہے؟ یا کچھ اور بھی باقی رہ جاتا ہے؟ اور اگر دین نہ ہو تو خدا کو ماننے کا فائدہ کیا رہ جاتا ہے؟

فرض کریں کوئی شخص خدا کو مانتا ہے لیکن نبی، دین، آخرت اور قیامت کو نہیں مانتا۔ ایسی خدا پرستی اس کے کس کام آتی ہے؟ اگر اسے آخرت کا یقین ہی نہیں تو پھر خدا ہے یا نہیں، دونوں برابر ہوئے۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ خدا کا اقرار صرف "بے دینی" کے لیبل سے بچنے کا ایک راستہ ہے تاکہ عملی ذمہ داریوں سے بچ جائے۔ ایسا خدا جس نے مخلوقات کو بے راہ چھوڑ دیا ہو، خدائے حکیم و رحیم کے تصور سے میل نہیں کھاتا۔

ایمان کے بغیر نیکی کا انجام

اب اصل سوال: اگر کوئی ہسپتال بنائے، خدمت کرے، مگر خدا، رسول اور قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو تو اس کا انجام کیا ہے؟

قرآن اس کا واضح جواب دیتا ہے:

«مَن کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَ زِینَتَهَا نُوَفِّ إِلَیْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِیهَا وَ هُمْ فِیهَا لَا یُبْخَسُونَ» «أُولَئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیهَا وَ بَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» (سورہ ہود/15-16)

’’جو لوگ صرف دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے خواہاں ہوں، ہم ان کے اعمال کا پورا بدلہ دنیا ہی میں دیتے ہیں اور ان پر کوئی کمی نہیں کی جاتی۔‘‘

’’لیکن آخرت میں ان کے لئے آگ کے سوا کچھ نہیں اور انہوں نے جو نیکیاں کی تھیں وہ سب وہاں باطل ہو جائیں گی۔‘‘

یہ آیات بتاتی ہیں کہ نیت اور عقیدہ ہی عمل کی حقیقت کو طے کرتے ہیں۔

اگر نیکی دنیا کے لیے ہو، شہرت کے لیے، عزت کے لیے تو بدلہ بھی دنیا میں ہی ملتا ہے۔ آخرت میں چونکہ نیت خدا کے لیے نہ تھی، اس لیے وہاں کوئی فائدہ نہیں ملتا۔

اخلاص کا مقام

آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں کہ آخرت وہ مقام ہے جہاں حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔

اسلام میں عمل کی قبولیت کے لیے دونوں چیزیں ضروری ہیں: حسن فعلی (خود عمل کا اچھا ہونا) اور حسن فاعلی (نیت اور ایمان اچھا ہونا)۔

یعنی نیکی کا ظاہری اچھا ہونا کافی نہیں بلکہ نیت کا خدا کے لیے ہونا ضروری ہے اور نیت کا خدا کے لیے ہونا ایمان کے بغیر ممکن نہیں۔

اخلاص ایک ایسا جوہر ہے جو معمولی ترین عمل کو بھی بے اندازہ قیمتی بنا دیتا ہے۔

نتیجہ

نیک لیکن بے دین شخص کے عمل کا بدلہ اسے اسی دنیا میں مل جاتا ہے لیکن آخرت میں چونکہ وہ عمل خدا کے لیے نہ تھا اس لیے اس کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔ چونکہ نیکی کی اصل قیمت ایمان اور اخلاص سے پیدا ہوتی ہے۔

مآخذ:

حوزہ نت

ڈیٹا بیس جامع و تخصصی کلام و عقاید و اندیشه دینی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha