منگل 23 ستمبر 2025 - 04:38
ہدایت اور گمراہی: انسان کا انتخاب یا خدا کی مشیت؟

حوزہ/ خداوند قرآن میں ہدایت اور گمراہی کو انسان کے اپنے انتخاب اور عمل سے جوڑتا ہے؛ وہ ہدایت انہیں عطا کرتا ہے جو حق کے راستے پر چلتے ہیں، اور گمراہی ان ظالموں اور ہٹ دھرمی کرنے والوں کے حصے میں آتی ہے جو خود گمراہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی I یہ سوال ہمیشہ سے ایک اہم دینی بحث رہی ہے کہ اگر قرآن میں کہا گیا ہے کہ "خدا جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے"، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس اختیار ہی نہیں رہتا؟ یا پھر اس بات کو آیاتِ قرآن کے مجموعے کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے؟

ضرورتِ جامع تفسیر

قرآن کی بعض آیات کو الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ بلکہ ایک آیت کو دوسری آیت کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے صحیح مطلب واضح ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر:

1. سورۂ نحل (آیت 93) میں ہے: اگر خدا چاہتا تو سب انسانوں کو ایک امت بنا دیتا، لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور تم سب سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔
2. سورۂ کہف (آیت 17):جسے خدا ہدایت کرے وہی راہ پانے والا ہے اور جسے خدا گمراہ کرے، اس کے لیے کوئی مددگار یا رہنما نہیں ہوگا۔
3. سورۂ اعراف (آیت 186):جسے خدا گمراہ کرے، اس کے لیے کوئی رہنمائی نہیں اور خدا ایسے کو اس کی سرکشی میں چھوڑ دیتا ہے۔
4. سورۂ زمر (آیات 36-37):جسے خدا گمراہ کرے اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں، اور جسے خدا ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔

تفسیر و وضاحت

مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ہدایت اور گمراہ کرنا "ابتدائی" نہیں ہے، یعنی خدا کسی کو پہلے ہی بنا بنایا گمراہ یا ہدایت یافتہ پیدا نہیں کرتا۔ بلکہ یہ نتیجہ انسان کے اپنے اعمال اور انتخاب کا ہے۔

جو شخص گناہ اور معصیت کے راستے پر چلتا ہے اور توبہ بھی نہیں کرتا، خدا اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور یہی "گمراہی" ہے۔ اور جو شخص نیک عمل اور توبہ کی راہ اختیار کرتا ہے، خدا اسے مزید ہدایت دیتا ہے۔
یعنی انسان جو راستہ چنتا ہے، خدا اسی میں اس کی مدد کرتا ہے۔

شرطِ ہدایت اور گمراہی

قرآن نے صاف بتایا ہے کہ خدا ظالموں، فاسقوں، کافروں، جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
مثلاً: "خدا ظالمان کو گمراہ کرتا ہے" "خدا کافروں کو گمراہ کرتا ہے"

اسی طرح ہدایت بھی مشروط ہے۔ خدا فرماتا ہے: «وَٱلَّذِینَ جَٰهَدُواْ فِینَا لَنَهدِیَنَّهُمۡ سُبُلَنَا» "جو لوگ ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں" (عنکبوت: 69)

«لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ»"خدا فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا"

«لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ» "خدا کافروں کو ہدایت نہیں دیتا" "خدا خائنوں کی تدبیر کو ہدایت نہیں دیتا"
اس لیے ہدایت اور گمراہی انسان کے انتخاب اور عمل پر مبنی ہیں، خدا صرف اس انتخاب کو پختہ کرتا ہے۔

انسان کی ذمہ داری

یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ راستہ دکھانا خالق کی طرف سے ہے، لیکن اس راستے پر چلنے کی ذمہ داری مخلوق یعنی انسان پر ہے۔ اگر انسان سیدھے راستے کو چھوڑ کر کج روی اور گمراہی کی طرف جائے تو اس کی ذمہ داری صرف اور صرف خود اسی پر عائد ہوتی ہے۔

خداوند قرآن میں فرماتا ہے: «وَ اللَّهُ یَدْعُوا إِلی‌ دارِ السَّلامِ» "اللہ سب کو دارالسلام (امن و سعادت کے گھر) کی طرف بلاتا ہے" (یونس: 25)۔

«من شاء اتخذ الی ربه سبیلا»"جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف کا راستہ اختیار کرے" (مزمل: 19)۔

«وَٱلَّذِینَ جَٰهَدُواْ فِینَا لَنَهدِیَنَّهُمۡ سُبُلَنَا» اورجو لوگ ہمارے راستے میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں" (عنکبوت: 69)۔

لیکن جو لوگ پروردگار کی طرف آنے کا شوق اور رغبت نہیں رکھتے، حق سے بیزاری اختیار کرتے ہیں، آیاتِ الٰہی اور قیامت پر ایمان نہیں لاتے، وہ اس آیت کے مصداق ہیں: «إِنَّ الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِ اللّهِ لاَ یَهْدِیهِمُ اللّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» "جو لوگ آیات خدا پر ایمان نہیں لاتے، خدا انہیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے" (نحل: 104)۔

یہ آیات صاف بتاتی ہیں کہ خدا نے ہر انسان کو اختیار اور آزادی عطا کی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:«إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا»"ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا، اب چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا" (انسان: 3)۔

نتیجہ

خداوند ظالموں، ستمگروں اور گناہکاروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہ لوگ خود ہی کھلی گمراہی میں ہوتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے: «وَمَن یَعصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلَٰلا مُّبِین» "جو اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں ہے" (احزاب: 36)۔

لہٰذا:جو شخص ہدایت کا مستحق ہو، خدا اسے جنت کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور کوئی اسے روک نہیں سکتا۔

اور جو شخص عذاب کا اہل بنے، خدا اسے جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور کوئی اسے بچا نہیں سکتا۔

اصل فیصلہ اور آغاز انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ ظلم اور گناہ کا راستہ اپنائے تو ہدایت سے محروم ہوگا۔ لیکن اگر تقویٰ اختیار کرے تو خدا اسے بصیرت، روشنی اور حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔

یعنی اچھا یا برا راستہ چننے کا اختیار ابتدا سے ہی انسان کو دیا گیا ہے، اور ہر انسان کا وجدان اس حقیقت کو مانتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha