حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جنت اور جہنم کی ہمیشگی (ابدیّت) کا سوال دراصل ایک کلامی بحث سے بڑھ کر اس گہرے ربط کو سمجھنے کی کوشش ہے جو انسان کے شعوری انتخاب اور اس کے دیرپا و فطری نتائج کے درمیان، خدا کے حکیمانہ نظام میں قائم ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے جنت اور جہنم کا ہمیشہ کے لیے ہونا سوال کا باعث بنتا ہے، کیونکہ بظاہر یہ انسان کے اس دنیا میں کیے گئے محدود اعمال کے تناسب میں نہیں لگتا۔
یہ سوال قدیم زمانوں سے علمِ کلام میں زیرِ بحث رہا ہے، یہاں تک کہ امام محمد باقرؑ کے دور میں بھی اس پر گفتگو ہوتی تھی۔
اصل مسئلہ جنت اور جہنم کے وجود پر شک نہیں، بلکہ اصل سوال ان کی جاودانگی (ہمیشگی) سے متعلق ہے۔قرآنِ کریم متعدد آیات میں واضح طور پر جنت اور جہنم کی ابدی حیثیت کو بیان کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جنت کے بارے میں «جَنَّةُ الخُلد» (ہمیشگی کی جنت) کا ذکر کرتا ہے اور اسے پرہیزگاروں کا انجام قرار دیتا ہے۔
(سورۂ فرقان: 25)
اسی طرح قرآن فرماتا ہے کہ نیک اعمال انجام دینے والے مؤمن ایسی جنتوں میں داخل ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
رسولِ اکرم (ص) کی روایات بھی جنت کے جاودانہ ہونے پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں، اور عدلِ الٰہی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی ایمان اور اطاعت میں گزاری ہو، سرگردانی یا عذاب کا شکار نہ ہوں۔
جہنم کے بارے میں بھی قرآن نہایت واضح الفاظ میں بعض افراد کے ہمیشہ اس میں رہنے کا ذکر کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ آگ ان کا ٹھکانا ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے: «خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا لَا یَجِدُونَ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا» (سورۂ اعراف: 65)
یہ ہمیشگی ان لوگوں سے متعلق ہے جنہوں نے جان بوجھ کر کفر، عناد اور ظلم کا راستہ اختیار کیا۔
قرآن یہ بھی بیان کرتا ہے کہ جہنم کی آگ کبھی بجھنے والی نہیں، اور خود جہنمی لوگ اس کا ایندھن ہوں گے؛ یعنی عذاب دراصل انسان کے اپنے اعمال کا براہِ راست نتیجہ ہے:
«فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ» (سورۂ بقرہ: 24)
اصل نکتہ یہ ہے کہ آخرت کی جزا اور سزا کوئی قراردادی قانون نہیں، جیسا کہ دنیا کے قوانین ہوتے ہیں، بلکہ یہ انسان کے عمل کے ساتھ ایک تکوینی اور فطری تعلق رکھتی ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ دنیوی مثال پر غور کیا جا سکتا ہے:
بعض اوقات انسان کی ایک معمولی سی غلطی یا لمحاتی غفلت، بہت بڑے اور مستقل نتیجے کا باعث بن جاتی ہے۔ جیسے کوئی ڈرائیور ایک لمحے کی بے احتیاطی کے سبب ایسے حادثے کا شکار ہو جائے جو خود اس کی یا کسی دوسرے کی زندگی بھر کی معذوری کا سبب بن جائے۔
ایسی صورت میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ غلطی چند لمحوں کی تھی، اس لیے اس کا نتیجہ بھی وقتی ہونا چاہیے؛ کیونکہ یہ انجام اسی عمل کا فطری اثر ہے۔اسی طرح دنیا میں انسان کے اعمال بھی بیج کی مانند ہیں جن کے نتائج آخرت میں ظاہر ہوں گے۔ جیسے کانٹے کا بیج بونے سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، ویسے ہی حق سے شعوری سرکشی اور گناہ کے بھی ایسے نتائج ہوتے ہیں جو خود عمل سے جدا نہیں ہوتے۔لہٰذا کسی عمل کا مختصر ہونا، اس کے اثر کے مختصر ہونے کی دلیل نہیں بنتا۔
دوسری طرف عقل بھی یہی حکم دیتی ہے کہ نیکوکار اور بدکار کا انجام ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔
اگر بعض لوگوں کے لیے جہنم کی ہمیشگی کو تسلیم نہ کیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی ایمان و تقویٰ میں گزاری، اور وہ لوگ جنہوں نے جان بوجھ کر فساد اور انکار کا راستہ اختیار کیا، دونوں کا انجام ایک سا ہو جائے؛ جو کہ عدلِ الٰہی کے سراسر خلاف ہے۔
اسی لیے ان دونوں گروہوں کے درمیان ہمیشہ کی جدائی، خدا کی حکمت اور عدل کا تقاضا ہے۔
البتہ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جنت میں جانے والے تمام افراد ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے۔ قرآن و روایات کے مطابق، کچھ لوگ ایک مدت "جس کا علم صرف خدا کو ہے" عذاب میں رہنے کے بعد رحمتِ الٰہی کے مستحق ہو جائیں گے، لیکن کچھ افراد اپنے شعوری انتخاب اور طرزِ زندگی کی وجہ سے جہنم میں ہمیشہ کے لیے باقی رہیں گے۔









آپ کا تبصرہ