پیر 16 جون 2025 - 16:46
اگر دین فطری ہے، تو دنیا دن بہ دن بے دینی کی طرف کیوں جا رہی ہے؟

حوزہ/ یہ تحریر اس سوال کا جائزہ لیتی ہے کہ اگرچہ دین اور نیکی کی طرف رجحان انسان کی فطرت میں شامل ہے، پھر بھی زیادہ تر لوگ برائی اور گمراہی کی طرف کیوں جا رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی I یہ تحریر اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ اگر دین اور نیکیوں کی طرف رجحان انسان کی فطرت میں شامل ہے، تو پھر کیوں اکثر لوگ برائی اور تباہی کی طرف جا رہے ہیں؟

سوال:

جب ہم دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ برائی اور تباہی کی طرف مائل ہیں۔ مگر جب کہا جاتا ہے کہ دین، توحید اور نیکی کی طرف رجحان انسان کی فطری ضرورت ہے، تو پھر اکثریت اس کے خلاف کیوں جا رہی ہے؟

آج کی دنیا تو عملاً "سیکولر" ہو چکی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دین فطری نہیں ہے؟ اور کیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ جہنم میں جائیں گے کیونکہ وہ دین سے دور اور بدعمل ہیں؟

مختصر جواب:

انسان فطری طور پر خدا کو ماننے والا اور سچائی کا طالب ہے، اور زیادہ تر لوگ اس آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

ان کی اصل فطرت نیکی کی تلاش میں ہوتی ہے، لیکن بعض اوقات وہ اسے پہچاننے میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔

یہ انحراف بیرونی اور اندرونی عوامل سے پیدا ہوتا ہے جیسے شیطان، نفسِ امّارہ (یعنی اندرونی خواہشات)، اور انسانوں کے ذریعے پھیلایا جانے والا غلط پروپیگنڈا۔ یہ چیزیں سچائی کو انسان کی نگاہ سے چھپا دیتی ہیں۔

"سیکولرازم" کا مطلب مکمل بے دینی نہیں، بلکہ دین کو سماج اور سیاست سے نکال باہر کرنا ہے۔

یہ نظریہ مغرب میں مسیحیت کی تحریف شدہ شکل، اس کے رہنماؤں کی بدعملیوں، اور زبردست منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے پھیلا۔

لیکن اسی مغرب میں آج بھی دین کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اکثریت جہنم کی طرف جا رہی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ حق کے طالب ہیں، لیکن شناخت میں غلطی کھا بیٹھے ہیں، جسے دینی اصطلاح میں "جاهل قاصر" کہا جاتا ہے۔

تفصیلی جواب:

اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان فطرتاً دین، اخلاق، خدا اور سچائی کی طرف مائل ہوتا ہے۔

علماء کی رائے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں یہی ہے کہ انسان کی فطرت حق کو تلاش کرتی ہے، البتہ کبھی کبھار وہ حق کو پہچاننے میں خطا کر بیٹھتی ہے۔

اگر ایک دن ایسا ہو کہ دنیا سے گمراہ کن پروپیگنڈا ختم ہو جائے اور حق اپنی اصل شکل میں ظاہر ہو، تو اکثریت اسی کو قبول کرے گی۔

پس لوگ برائی کو برائی سمجھ کر اختیار نہیں کرتے، بلکہ یا تو علم کی کمی کی وجہ سے بدی کو نیکی سمجھ لیتے ہیں، یا خواہشات اور شیطان کے دھوکے میں آکر عمل میں لغزش کھاتے ہیں۔ خاص طور پر بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے، دنیا میں ضدِ دینی پروپیگنڈے نے اخلاقی بنیادوں کو کمزور کیا ہے اور سماج کو "سیکولر" بنا دیا ہے۔

مغرب میں مسیحیت چونکہ عقل سے ٹکراتی اور تحریف شدہ ہے، اور وہاں کے مذہبی راہنما بھی بداعمال تھے، اس لیے دین سماج سے نکل گیا۔ لیکن اس کے باوجود، جیسے ہی ایسے نظام گرتے ہیں (مثلاً کمیونسٹ حکومتیں)، لوگ فوراً دین کی طرف لوٹتے ہیں۔یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ دین انسان کی فطرت میں شامل ہے۔

کیا اکثریت لوگ جہنم میں جائیں گے؟

یہ بات درست نہیں۔ اسلام نے واضح طور پر فرق رکھا ہے اُن لوگوں میں جو حق کو پہچان کر جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں (یعنی معاند اور مقصر کافر)، اور اُن لوگوں میں جو نادانی یا لاعلمی سے گمراہ ہو جاتے ہیں (جاهل قاصر)۔

اسلام ایک طرف جہاں سچائی اور باطل کے درمیان واضح فرق بیان کرتا ہے، وہیں دوسری طرف جاهل قاصر کے ساتھ نرمی اور رواداری کا رویہ رکھتا ہے۔

جو شخص اسلام کی اصل حقیقت سے واقف ہی نہیں ہو پایا، مگر اپنی دانست میں حق پر ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتا ہے، وہ نجات پا سکتا ہے۔ اگر ہم دنیا کو سطحی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ گہرائی میں جا کر اس کا تجزیہ کریں، تو اندازہ ہوگا کہ: اکثریت لوگ اپنی فطرت کے مطابق نجات پانے والے ہیں، اگرچہ وہ دنیا میں حق کو مکمل طور پر نہ پہچان پائیں، اور اگرچہ کچھ وقت کے لیے جہالت یا نفسانی خواہشات کی وجہ سے گمراہ ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ وہ کچھ عرصہ برزخ یا قیامت یا جہنم میں سختی دیکھیں، لیکن آخرکار فطری نیکی کی بنا پر نجات پائیں گے۔ ہمیشہ کے لیے جہنم میں صرف وہی لوگ رہیں گے جنہوں نے شعوری طور پر اپنی فطرت کو دفن کر دیا اور حق کا انکار کیا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha