۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
کیا "مذہب کی بنیاد" سائنس سے ناواقفیت ہے !؟

حوزہ/ متکلمین اور مسلمان دانشمندوں کی نظر میں دین کا منشاء ، اصل ، بنیاد اور جڑ فطرت ہے دنیا کے سارے انسان اپنی  نسل اور رنگ کے اعتبار سے مختلف ہونے کے باوجود اپنی توانی اور صلاحیت کے مطابق خدا کو پہچانتے ہیں۔

تحریر: محمد جواد حبیب 

حوزہ نیوز ایجنسیکیا مذہب کا منشاء، اصل ، اساس ، بنیاد اور جڑ  سائنسی علوم سے ناواقفیت ہے؟ مذہب کے مخالفین کا دعوا کیا ہے؟ آگسٹ کانٹ کے نزدیک "مذہب کی جڑ" سائنسی علوم سے ناواقفیت   ہے ۔درحالیکہ اسلامی دانشورں اور متکلمین کی نگاہ میں دین اور مذہب کی  بنیاد فطرت ہے انسان فطری طور پر دیندار ہوتاہے  ۔
جس طرح ایٹم کے ٹوٹنے سے مادہ کے بارے میں انسان کے پچھلے تمام تصورات ختم ہوگئے ، اس طرح   سائنسی علوم کی  ترقی   کی وجہ سے  خدا  اور مذہب کے پرانے تمام خیالات  ختم ہوگئے ۔ جس کو علمی دھماکہ (Knowledge Explosion ) کہاجاتا ہے  ۔
جدید الحادی مفکرین کے نزدیک مذہب کی کوئی حقیقیت نہیں ہے مذہب  انسان کی لاشعوری میں پیدا کردہ خیالات کا نتیجہ ہے   آگسٹ کانٹ کے نزدیک "مذہب کی جڑ" سائنسی علوم سے ناواقفیت ہے ۔
آگسٹ کانٹ (Auguste Comte) جو انیسویں صدی کا فرانسیسی مفکر ہے اس نے انسان کی فکری ارتقا کی تاریخ کوتین مرحلوں میں تقسیم کیاہے۔
۱۔   الہیاتی مرحلہ(Theological Stage) ہے جسکو ربانی اور دینی مرحلہ بھی کہا جاتا ہے  جس میں  واقعات  اور حوادث عالم کی توجیہ خدائی طاقتوں کے حوالے سے کی جاتی ہے ۔ چونکہ انسان  تمام طبیعی حوادث  جیسے طوفان ، سیلاب ،زلزلہ ،بیماری ، وباء وغیرہ کے علل اور اسباب کو نہیں جانتا تھا اس لئے  اس کو  خدا کی طرف نسبت دیا کرتا تھا اور اس کو خوش کرنے کے لئے اسکی عبادت کیا کرتا تھا قربانی دیا کرتا تھا تاکہ وہ انسانوں کو اس طرح کے آفتوں سے نجات دے ۔ سیاسی اور اجتماعی صورت حال اس وقت یہ تھی کہ قوم پرستی ، خاندان پروری ،خودپرستی ،شخصیت پرستی اور نسل پرستی  جیسی افکار حاکم تھی   ۔
یہ الہیاتی مرحلہ  : خود تین مراحل سے تشکیل پاتا ہے :
الف  ۔بت پرستی (Fetishism) اس مرحلہ میں انسان، طبیعت سے قریب تھا اور  ہر طرح کے اتقافات اور حوادث کو بغیر غور و فکر کے تسلیم کرتا تھا  جس کی وجہ سے بت پرستی کی فکروجود میں آگی اور ہرمادی چیز کو خدا ماننے لگا ۔
ب ۔ بہت سے خداوں کا تصور(Polytheism) لوگ بہت سے خداوں کو تسلیم کرنے لگے   اس مرحلہ میں انسانوں نے سوچنا شروع کردیا اس لئے اتفاقات  اور حوادث  کو مابعد الطبیعی موجودات کی طرف نسبت دیا کرتے تھے جس کی بنا پر چند خداوں کا تصور زندہ ہوگا۔
ج ۔ توحید (Monotheism)  توحید پرستی کی فکر اس لئے وجود میں آئی کہ جب انسانوں نے بہت سے خداوں کی عبادت شروع کردی جس کے بنا پر آپس میں تعارض اور ٹکراو ہونے لگا  چونکہ سب کا خدا الگ الگ تھا اس بنا پر اسے ختم کرنے کے لئے یکتا پرستی ،ایک خدا کا تصور پیدا ہو گیا ۔اور یہ مرحلہ  الہیاتی مرحلہ  کا  آخری منزل تھی۔
۲۔ مابعد الطبیعیاتی مرحلہ( Metaphysical Stage) ہے جسکو فلسفی مرحلہ بھی کہا جاتا ہے جس میں متعین خدا کانام تو باقی نہیں رہتا ،پھر بھی واقعات کی توجیہ کے لئے خارجی عناصر کا حوالہ دیا جاتا ہے اس مرحلہ میں انسانوں نے سوچنا شروع کردیا بہت سے اتفاقات کی علل اور اسباب کو جاننے لگے اور ان لوگوں نے حوادث عالم کی علل اور اسباب کے سلسلے کو ایک علت پر منتھی کیا جس کو طبیعت(Nature) کہا جاتا ہے اس کے باوجود بھی فکر اور تعقل کا یہ سلسلہ جاری رہا اس وقت تک علت اصلی کو حاصل نہ کرسکا۔
۳۔ ثبوتی مرحلہ (Positive Stage) ہے جسکو سائنس اور تجربہ کا مرحلہ بھی کہا جاتا ہےجسمیں واقعات کی توجیہ ایسے اسباب کے حوالے سے کی جاتی ہے  جو مطالعہ اور مشاہدہ کے عام قوانین کے تحت معلوم ہوتے ہیں بغیر اس کے کہ کسی روح ، خدا یا مطلق طاقتوں کا نام لیا گیا ہو اس فکر کی رو سے اس وقت ہم اسی تیسرے فکری دور سے گزررہے ہیں اور اس فکر نے فلسفہ میں جونام اختیار کیا ہے وہ منطقی ثبوتیت (Logical Positivism) ہے  منطقی ثبوتیت یا سائنسی تجربیت (Scientific Empiricism) با قاعدہ تحریک کی شکل میں بیسویں صدی کی دوسری چوتھائی میں شروع ہوئی ، مگر ایک طرز فکر کی حیثیت سے پہلے ذہنوں میں  پیدا ہوچکی تھی اس کی پشت پر، ہیوم (Hume) اور مل (Mill) سے لے کر رسل (Rassel) تک درجنون ممتاز مفکرین کے نام ہیں 
ان کے اس افکار کا مختصر جواب یہ ہے کہ دور جدید کی ساری دریافتیں صرف اس بات کا اعتراف ہیں کہ آج سے ۱۴۰۰  سو سال پہلے اسلام کا دعوی  ہےکہ وہ آخری صداقت ہے اور آئندہ کی تمام انسانی معلومات اسکی صداقت  بیان کرتی چلی جائیں گی ۔
 سَنُرِيْهِـمْ اٰيَاتِنَا فِى الْاٰفَاقِ وَفِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَتّـٰى يَتَبَيَّنَ لَـهُـمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۔  عنقریب ہم دکھائیں گے اپنی نشانیاں ان کو آفاق میں اور خود ان کے اندر یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جاے کہ وہ حق ہے ۔
اگوسٹ کانٹ کے نظریہ پر  تنقید :
۱۔  اگوسٹ کنٹ ،اپنے  اس دعوی  پر کوئی دلیل نہیں  پیش کرتا ہے کہ" دین کا منشاء،جڑ اور بنیاد  انسان کا سائنسی علوم سے ناواقفیت ہے " اور ایک طرف سے اس نے انسانی علم اور افکار کے جو تین مراحل بیان کیا ہے  اسے بھی  سارے  معاشروں اور جوامع بشر پر تطبیق کرنا صحیح نہیں ہے،   دوسرے الفاظ میں کہا جائے   کچھ معاشروں کی حالات اور وضعیت  کو دنیا کے دوسرے سارے معاشروں اور جوامع پر تطبیق کرنا معقول نہیں ہے۔شاید یورپ میں ایسا ہوا ہو لیکن مشرقی دنیا ، جیسے چین ، ایران ،  ھندوستان  جہاں بڑے بڑے ادیان کے پیروکار زندگی بسر کرتے ہیں کسی نے اس طرح کی تحلیل  ذکر نہیں کیا ہے 
۲۔ آگوست کانٹ کی یہ تحلیل اسکی تنگ نظری  کی علامت ہے  اسکا یہ کہنا کہ دینی عقاید سائنسی علوم اور تجربی علوم کے ٹکراو میں ہے اب سوال یہ ہے اس پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے جب کہ بہت سے معاشروں میں انسانوں نے سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی ترقی کی ہے مادیات کے ساتھ ساتھ معنویات میں بھی ترقی حاصل کی ہے اس لئے یہ کہنا کہ دینی علوم ، سائنسی علوم کے ٹکراو میں ہے یہ آگست کنت کی تنگ نظری  کی علامت ہے بلکہ اسلامی نکتہ نگاہ سے دینی علوم کل ہے اور سائنسی علوم اسکا جزہے ، سائنسی علوم اور دینی علوم ایک دوسرے کے لئے مکمل ہیں ، یعنی سائنس کے بغیر آپ صحیح اسلام کو درک نہیں کرسکتے اور دینی علوم کے بغیر آپ صحیح سائنسدان نہیں بن سکتے۔
۳۔ آگسٹ کنٹ سے سوال ہے کیا جس تین مراحل کو آپ  نے ذکر کیا ہے وہ کیوں ایک جگہ جمع  نہیں ہوسکتا ہے؟ ایک ہی دور میں دینی ،فلسفی اور سائنسی لوگ زندگی بسر کیوں نہیں کرسکتے ہیں ؟  در حالیکہ تاریخ کے مطالعہ سے  معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں  الہیاتی ،فلسفی ،اور اثباتی  افکار کے لوگ موجود تھے  ۔
۴۔ محققین کا بالخصوص معاصر انسانوں کا دینی  افکار اور عقاید کی جانب  جھکاو ، ما بعد الطبیعی اور دینی تجارب پر عقیدہ آگسٹ کنٹ کے نظریہ کی ناپختگی  پر  کھلی دلیل ہے وہ بھی اس وقت جہاں سائنسی علوم اپنے اوج پر ہے اس وقت  دانشمندوں   اور سائنسداونوں کا دینی علوم کی طرف جوق در جوق  رجوع کرنا س بات کی دلیل ہے کہ آگست کنت کا نظریہ صرف اس کی شخصی نظر ہے  اور اس کی کوئی واقعیت اور حقیقت  نہیں ہے ۔
اس بنا پر یہ کہنا کہ دین کا منشاء ، جڑ،اصل اور اساس انسان کا سائنسی علوم سے ناواقفیت ہے   غیر معقول ہے  اس وقت  بہت سے علمی انکشافات ہوچکے ہیں اور اس  سےبھی زیادہ انکشافات ابھی ہونا باقی ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کا دین کی طرف رجوع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ دین اور مذہب سائنسی علوم کا مخالف نہیں ہے۔

مذہب کا منشاء فطرت ہے :
متکلمین اور مسلمان دانشمندوں کی نظر میں دین کا منشاء ، اصل ، بنیاد اور جڑ فطرت ہے دنیا کے سارے انسان اپنی  نسل اور رنگ کے اعتبار سے  مختلف ہونے کے باوجود اپنی توانی اور صلاحیت کے مطابق خدا کو پہچانتے ہیں اور یہ معرفت ان کے اندر موجود ہوتی ہے  لیکن مادی اور شیطانی موانع اور رکاوٹ کی بنا پر  وہ اس معرفت  دور ہوجاتا ہے یا یہ عقیدہ کمرنگ ہوجاتا ہے لیکن جب بھی وہ  مشکلات اور پریشانیوں سے روبرو ہوتا ہے خدا کی معرفت پیدا ہوجاتی ہے  ۔ اسی طرح  خدا کی عبادت اور پرستش بھی فطری ہے اگر انسان کو کسی جنگل میں رکھا جاے  دینی تعلیمات سے دور رکھا جاے یا اس کو کچھ سیکھا یا پڑھایا نہ جاے تبھی وہ خدا کی عبادت کررہا ہوگا۔چونکہ خدا شناسی اور خدا پرستی  فطری ہے  ۔ فطرت اسے کہا جاتا ہے جسکو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ انسانوں کے اندر موجود ہوتاہے جیسے  محبت اور نفرت، دوستی  اور دشمنی ، خوشی اور غم ، رونا اور ہسنا، پیاس کے وقت پانی پینا ، بھوک کے موقع پر کھانا کھانا  وغیرہ یہ سب فطری عمل ہے جسکو ہم ماں باپ ، ماحول ، لکچر، اسکول ، مدرسہ یا یوینورسٹی میں نہیں سیکھتے ہیں بالکہ ان سب کو خدا نے ہمارے اندر رکھ دیاہے اسی طرح خدا کی تلاش اور خدا کی پرستش بھی ہماری فطرت میں موجود ہے  اور یہ چیزیں سارے انسانوں میں ہر وقت ہر زمانہ میں برابر سے موجود ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .