حوزہ نیوز ایجنسیl اگر کوئی شخص بے دردی، بے رحمی اور سفاکیت میں مشہور ہو یا کوئی بے رحم قاتل ہو تو لوگ اسے "وحشی جانور" سے تشبیہ دیتے ہیں اور ہر طرح کی خونریزی اور قتل و غارت کے عمل کو وحشی پن کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ انسان "وحشی جانور" بن گیا ہے لیکن اب انسان اتنا وحشی اور خطرناک ہو گیا ہے کہ یہ لفظ بھی اس کے لئے چھوٹا لگنے لگا ہے بلکہ وحشی جانوروں سے ایسے انسانوں کی تشبیہ دینا ان جانوروں کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ شاید اس انسان سے بڑی وحشی مخلوق اس روئے زمین پر کہیں نہ ہو۔ جبکہ اللہ نے انسان کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج سجایا تھا اور تمام مخلوقات میں اس کو ممتاز قرار دیا تھا تاکہ یہ خدائی حسن و جمال کا آئینہ بن سکے اور اس کی برترین صفت، صفت رحمانیت کا مظہر بن جائے اسی سبب جہاں خداوندعالم نے انسان کو خواہشات دیں وہیں اسے زیور عقل سے مزین بھی کیا۔ ایک طرف خالق نے قہر و غصب کا پہلو انسانی فطرت میں رکھا ہے تو دوسری طرف مہر و الفت کی شمع بھی اس کے دل میں روشن کی گئی۔ غرض انسان کو انسان اسی لیے کہا گیا کیونکہ وہ دیگر جانداروں سے عقل و محبت رکھنے کی سے وجہ سے ممتاز ہے۔ علم منطق میں انسان کی تعریف "حیوان ناطق" سے کی گئی ہے یعنی اگر اس سے نطق و عقل چھین لی جائے تو اس میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا یہی وجہ ہے کہ جب انسان نے اپنی ماہیت اور حقیقت کو نہیں پہچانا اور اس کی قوت غضبیہ اور شہویہ بے مہار ہو گئی تو اس نے درندوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یوں تو انسانی درندگی کی مثالوں سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں اور کوئی زمانہ بھی اس کے کالے کارناموں سے خالی نہیں ہے لیکن موجودہ زمانے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ گزشتہ ادوار کے ظلم و بربریت کی داستانوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
دل والوں کی دلی کہی جانے والی ہندوستانی ریاست اور دارالحکومت آج ایسے انسانی درندوں کی وجہ سے زخمی ہو چکی ہے کہ جن کو انسان کہتے ہوۓ بھی شرم محسوس ہوتی ہے اور ان سے کہیں بہتر جنگل کے وہ وحشی جانور نظر آتے ہیں جو صرف اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے کسی دوسرے جانور کو قتل کرتے ہیں لیکن یہ انسان اپنے ہی بھائیوں اور اپنے ہی جیسے افراد کی لاشوں کو زینہ بنا کر اقتدار کی کرسی تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اسے اپنے بچوں سے محبت تو ہے لیکن اسے دوسرے انسانوں کے بچوں کے رونے اور گڑگڑانے کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اسے اپنی ماں کی ممتا سمجھ میں آتی ہے لیکن ایک ماں سے اس کے لعل کو چھین لینے میں اسے کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا۔ اسے اپنی بیوی کے جزبات و احساسات کی فکر تو ہے لیکن وہ ایک نو بیاہتا سے اس کا سہاگ چھین لیتا ہے۔ وہ اپنی بہنوں کی عزت کی خاطر اپنی جان بھی دے سکتا ہے لیکن کسی اور کی بہن کی عزت تار تار کرنے میں اسے ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی اور تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب اس قتل و غارتگری کا سبب مذہب بیان کیا جاتا ہے جبکہ ایسے شخص کا واسطہ مذہب تو دور کی بات ہے ، انسانیت سے بھی نہیں ہوتا۔ اور یہ کہنے میں تأمل نہیں ہے کہ اس دنیا میں جتنا زیادہ مذہب کے نام پر مار کاٹ، قتل و غارتگری ہوئی ہے کسی اور وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہوا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مذہب کی تعلیم یہی ہے بلکہ صحیح مذہبی تعلیم نہ ہونے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ در اصل مذہب تو نوع بشر کو حیوانات کی صفوں سے جدا کرنے کے لیے آیا تھا اور محبت کے جذبات کو ابھارنے کا ایک ذریعہ تھا لیکن یہ انسان خواہشات نفسانی کے دلدل میں ایسا پھنسا کہ پھر وہ اپنی انسانی اقدار کو بھی فراموش کر بیٹھا۔ اور ایک منزل پر آکر اس نے جنگلی درندوں کو بھی مات دے دی۔
لہذا دہلی میں جو کچھ ہوا وہ صرف ایک فساد نہیں بلکہ انسانیت کے ماتھے پر ایک سیاہ دھبہ ہے اور ہندوستانی ثقافت کے اعتبار سے گنگا جمنی تہذیب کے زوال کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں ہر عام انسان کا نقصان ہوا بالخصوص اعتماد کی اس دیوار میں شدید رخنہ پیدا ہوگیا کہ جو بڑی مشکل سے کھڑی تھی۔ جس منصوبہ بندی کے ساتھ فسادیوں نے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا وہ پہلی بار تو نہیں تھا لیکن یہ واضح ہے کہ گجرات کے بعد کسی دوسری ریاست میں پہلی بار اس طرح سے قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا گیا۔ بعض عینی شاہدین نے اس کو 1984 کے سکھ فسادات سے تعبیر کیا ہے اور یہ صحیح بھی ہے اس لئے کہ حکومت نے جس طرح دنگائیوں کی پشت پناہی کی اور پولیس نے ایک خاص طبقے کا ساتھ دیا اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حکومت اس میں ملوث ہے۔
جو تصویریں اور ویڈیوز شوشل میڈیا پر چل رہی ہیں اور اس کے علاوہ جو کچھ عینی شاہدین اور متأثرین نے بتایا ہے وہ بہت ہی دردناک ہے۔ جو لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں ان کے لئے یہ سب بھول پانا بہت مشکل ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں پھر امن و امان قائم فرمائے، ظالموں کو ان کے کیفرکردار تک پہنچائے اور درد سے چیختی چلاتی اور کراہتی ہوئی انسانیت کو انسانی درندوں سے نجات عطا فرمائے۔
تحریر:سید محمد حیدر اصفہانی
نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔