۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
دہلی تشدد

حوزہ/یہ بات بالکل عیاں ہوگئ ہے کہ دہلی فسادات منصوبہ بند سازش کا حصہ تھا،لیکن امید افزاء بات ہے کہ ان بھیانک فسادات کے دوران بھی انسانیت اور ہندو مسلم اتحاد کی بہت سی مثالیں اور نمونے سامنے آئے ہیں، فسادات کے دوران جگہ جگہ ہندؤں نے مسلمانوں اور مسلمانوں نے ہندوں کو بچایا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl سعادت حسن خاں منٹو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ اور پروردہ تھے ، انہوں نے ناول اور افسانہ نگاری کے میدان میں خوب نام کمایا،منشی پریم چند کے بعد اس میدان میں سب سے زیادہ نمایاں رہے ،وہ بہت مذھبی انسان نہیں تھے، یعنی ان کا مذھب سے تعلق برائے نام ہی تھا ،رسم و رواج اور تہوار کی حد تک ہی ان کے اندر مسلمانی تھی، ورنہ وہ ذاتی زندگی میں بہت حد تک آزاد منش تھے، ملک کی تقسیم کے بعد انہوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ اور ارادہ کر لیا ،جب وہ یہاں سے جانے لگے تو ان کے دوستوں اور مصاحبوں نے ان سے کہا : منٹو جی ! آپ پاکستان کیوں جا رہے ہیں؟ وہ ملک تو مذھب کی بنیاد پر بنا ہے ،آپ تو مذھبی آدمی نہیں ہیں؟ آپ اپنے آپ کو وہاں کے ماحول میں کیسے اڈجیسٹ کریں گے؟ کیا وہاں آپ کو اجنبیت کا احساس نہیں ہوگا؟ سعادت حسن خاں منٹو صاحب نے جو جواب دیا وہ بہت ہی معنی خیز اور مبنی بر حقیقت جواب تھا ،انہوں نے کہا کہ "میں نے مانا کہ میں مذھبی آدمی نہیں ہوں لیکن اتنی مذھبیت تو میرے اندر ہے ہی کہ اگر یہاں فساد اور بلوا ہوگا تو مخالف ہم کو مسلمان سمجھ کر مار دیں گے وہ میری مذھبیت اور مذھبی دلچسپی کے ہونے یا نہ ہونے کو معیار نہیں بنائیں گے" ۔

ایسا ہی کچھ منظوم تاثر میرٹھ کے فساد کے موقع پر مشہور شاعر "بشیر بدر"نے دیا تھا جب بلوائیوں نے ان کے مکان پر بھی حملہ کردیا تھا ۔

دہلی کے فساد کے موقع پر بھی بعض ان مسلم نیتاؤں کے گھروں پر بھی حملے ہوئے جو بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ذمہ دار تھے ،انہوں نے اس مشکل موقع پر پولیس اور انتظامیہ کے لوگوں کو فون کئے اور پارٹی کے لوگوں سے بھی گہار لگائی لیکن کسی نے ان کی پکار اور آواز کو نہیں سنا اور ان سنی کردی ۔ آئیے اس کی ایک رپورٹ مشہور صحافی معصوم مرادآبادی کی زبانی سنتے ہیں ۔

وہ لکھتے ہیں : شمال مشرقی دہلی کے فساد میں جن سینکڑوں لوگوں کے مکان نذرآتش کردئیے گئے ہیں ان میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے نائب صدر اختر رضا بھی شامل ہیں۔ ان کی مظلومیت کی داستان ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر مختلف عنوانات کے تحت گردش کررہی ہے۔ انگریزی روزنامہ ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے اختر رضا نے کہا کہ جب فسادی ان کے مکان کو نذرِ آتش کررہےتھے تو انھوں نے پولیس کو فون کیا لیکن پولیس نے کوئی مدد کرنے کے بجائے ان سے کہیں اور چلے جانے کو کہا۔وہ کسی طرح اپنی جان بچانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن مشتعل ہجوم نے ان کا مکان جلاکر خاک کرڈالا۔اختررضا کو غم اس بات کا ہے کہ گھر بار لٹ جانے کے باوجود پارٹی کا کوئی لیڈر نہ تو ان کا حال چال پوچھنے آیا اور نہ ہی کسی نے فون پر ان کی خیریت دریافت کی۔

یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اختر رضا نے فسادیوں کو اپنی سیاسی وابستگی کا حوالہ دیا تھا یانہیں اور اگر دیا تو اس پر فسادیوں کا ردعمل کیا تھا۔ اختر رضا کی کہانی پڑھ کر مجھے 1992 میں بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت کے بعد ایودھیا میں مقیم بی جے پی کے ایک مقامی مسلمان لیڈر کی یاد آ ئی جسے بڑی سفاکی سے ہلاک کیا گیا تھا۔جب مذکورہ مسلمان نے فسادیوں کو بتایا کہ وہ بی جے پی کا مقامی عہدیدار ہے تو حملہ آوروں نے اسے یہ کہتے ہوئے مارڈالا تھا کہ " سانپ کا بچہ تو سنپولیا ہی ہوتا ہے۔"

جو مسلمان بی جے پی سے جڑے ہیں، اور اقلیتی شعبے کے مختلف عہدہ دار ہیں وہ یہ سمجھ لیں کہ جب اس طرح کا وقت آئے گا تو وہ بھی اختر رضا کی طرح بخشے نہیں جائیں گے وہ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے،اگر ان کو غلط فہمی ہے تو وہ اس کو دور کرلیں۔

الیاسی ہوں یا رشیدی کوئی بھی ہوں ؟ ہر ہندوستانی مسلمان کی،اس وقت ذمہ داری ہے کہ ایسے موقع پر اپنی ذمہ داری کا احساس کریں ،سچ اور حق بولیں،اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں،باہم سیسیہ پلائی دیوار بن جائیں ،اپنی دعوتی و اصلاحی ذمہ داریاں سمجھیں ،مانوتا اور انسانیت، پریم اور محبت کی سوغات بانٹیں۔ برادران وطن کو اعتماد میں لیں اور ان کی ذھن سازی کریں،ان میں اکثر لوگ امن پسند ہیں وہ فساد و بلوا نہیں چاہتے ہیں وہ امن و شانتی چاہتے ہیں ہم ان سے مذاکرات کریں، ان سے حلف الفضول کے طرز پر معاہدہ اور پیکٹ کریں ،ملک کی صحیح صورت حال سے ان کو واقف کرائیں، دہلی کے فساد سے یہ نتیجہ بھی سامنے آیا ہے کہ یہ فساد ہندو مسلم فساد نہیں ہے بلکہ یہ فساد کرانے والے در اصل جانور صفت لوگ ہیں جو امن کے دشمن اور امن و شانتی کے مخالف ہیں ۔ دہلی کے ہندو اور مسلمان سب کی یہ خواہش ہے کہ وہ امن و سلامتی اور پریم و محبت سے رہیں ان کے تعلقات باہم اچھے رہیں وہ آپس میں شیر و شکر بن کر رہیں۔

یہ بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ دہلی فسادات منصوبہ بند سازش کا حصہ تھا،لیکن امید افزا بات ہے کہ ان بھیانک فسادات کے دوران بھی انسانیت اور ہندو مسلم اتحاد کی بہت سی مثالیں اور نمونے سامنے آئے ہیں، فسادات کے دوران جگہ جگہ ہندوں نے مسلمانوں اور مسلمانوں نے ہندوں کو بچایا، اگر چہ مسجدوں اور درگاہوں کی بے حرمتی ہوئ مگر ایسی بھی خبریں ہیں کہ بہت سے علاقوں میں ہندوں نے بلوائیوں سے مسجدوں کی حفاظت کی، اور بہت سے مقامات پر مسلمانوں نے انسانی زنجیر بناکر مندروں کی حفاظت کی۔

اخبارات کی رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ فساد برپا کرنے والے زیادہ تر باہری تھے۔ بہت سے اخباری نمائندوں نے متاثرہ علاقوں میں جاکر جب ہندوں اور مسلمانوں سے گفتگو کی تو انہوں نے ایک زبان میں یہی بات کہی کہ حملہ آور اور فسادی ان کی بستی اور محلے کے نہیں تھے۔

دہلی فساد نے ہمیں سمجھایا ہے اور یہ سبق دیا ہے کہ ہم مسلمان اب اپنے رب سے تعلق اور رشتہ کو مضبوط کریں اور اسلامی تعلیمات کو مکمل طور پر اپنی زندگی میں نافذ کریں اور یہ سمجھ لیں کہ ہم مسلمان کتنے گرے اور نام ہی کے مسلمان کیوں نہ ہوں ہمکو اسلام اور مسلمان کے نام پر ہی ستایا جا رہا ہے ،اس لئے اس نسبت کا حوالہ دے کر کہ "ہم کو مارا ہے مسلمان سمجھ کر آقا"اپنے رب سے التجا کریں، اس سے مدد کی درخواست کریں ،اس کے سامنے اپنی بپتا سنائیں اور اس سے حالات بدلنے اور دشمنوں کو مغلوب کرنے کے لئے الحاح و تضرع کے ساتھ دعا کریں،ندامت کے آنسو ٹپکائیں۔ ان شاء اللہ تعالی حالات بدل جائیں گے ۔

دوسرا سبق دہلی فساد نے ہمیں یہ دیا ہے کہ اب ملک بھر میں مسلمانوں کو گھر گھر جاکر مانوتا اور انسانیت کے پیغام کو سنانا چاہیے اور اس ملک کو اگر بچانا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کے یہاں کے سیکولر ہندؤوں، سکھوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ساتھ لیں اور ملک کو بچانے کی کوشش کریں،امید کہ ہم سب ان باتوں پر توجہ دیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں گے ۔

تحریر:محمد قمرالزماں ندوی

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .