حوزہ نیوز ایجنسی| اگر انصاف سے کام لیا جائے تو اس عنوان کی بحث کا آغاز انگریزوں کے چل چلاو سے ہی ہوگیا تھا۔
ایک بڑا سوال منھ پھاڑے کھڑا تھا کہ اب متحدہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک کا حاکم کون ہوگا۔
سوال دیکھنے میں بڑا تھا مگر ایک با تدبیر قوم کیلئے اس کا حل تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔
ہندوستانی مسلمانوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہ تعداد میں ہندؤوں سے ضرور کم تھے مگر جہالت میں ان سے کسی طرح کم نہ تھے۔
انگریزوں کی رخصت کے بعد مسلمان اتنی سکت تو رکھتے ہی تھے کہ وہ قدرتی طور پر منقسم ہندؤوں پر اپنی علمی اخلاقی اور سیاسی برتری ثابت کرسکیں، ظاہر ہے متحدہ ہندوستان میں ہندو لاکھ تعداد میں زیادہ ہوتے مگر ان کیلئے کشمیر، بھوپال، جونا گڑھ اور حیدرآباد جیسی ریاستوں کو اتنی آسانی سے نگل لینا ممکن نہ ہوتا۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے نفری عدد کو معیار مان کر خود کو غیر محفوظ سمجھنا اور سمجھانا شروع کردیا۔
چونتیس فیصد مسلمان ساٹھ فیصد ہندؤوں پر بلاشبہہ بھاری تھے اسلئے کہ اعلیٰ ذات کے اصل ہندؤوں کی تعداد کسی بھی طرح پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔
خیر یہ بحث لمبی ہے... مسلمانوں کے ایک طبقے نے یہ طے کرلیا کہ ملک کے ایک حصے پر دعوی ٹھونک کر بقیہ سے ہاتھ اٹھالیا جائے، ایک طبقہ اسلئے کہ جہاں چارفیصد شرح تعلیم ہو وہاں چھیانوے فیصد کو تو اصل حالات کا علم ہی نہیں ہوسکتا لہذا سادہ لوح امراء اور عقل سے پیدل زمینداروں نے یہ طے کرلیا کہ اب تقسیم ہی واحد حل ہے اور مولانا آزاد چیختے رہ گئے کہ کیا ہوا اگر سات صوبوں میں تم اقلیت میں ہو بقیہ پانچ میں تو تمہاری اکثریت ہے، متحدہ ہندوستان کا کوئی بھی فیصلہ تمہیں نظر انداز کرکے نہیں لیا جا سکتا۔
مگر فوری نتیجہ چاہنے کی خواہش اور دیرپا منصوبہ بندی کیلئے ضروری تحمل نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے طول و عرض میں ایک نعرہ لگادیا گیا کہ اسلام خطرے میں ہے، جب کہ اصلی خطرہ تو اس نعرے کے بعد پیدا ہوا۔
بہرحال تاریخ انسانیت کی بے نظیر ہجرت اور ایک لرزہ خیز، خونچکاں داستان رقم کرکے ملک تقسیم کردیا گیا۔
اب وہی پرانا سوال جو چھوٹا تھا اب مزید بڑی شکل میں آن کھڑا ہوا کیوں کہ وہ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس جو متحدہ ہندوستان میں ایک فرقہ پرست ٹکڑی کی حیثیت رکھتی تھیں اچانک وہ پورے ہندوستان کی دعویدار ہوگئیں۔
اب جہاں مذہب کے نام پر ایک ملک بن چکا ہو وہاں یہ سوچنے کی زحمت کون کرتا ہے کہ بقیہ ہندوستانیوں نے ایک سیکیولر ملک چنا تھا۔
تقسیم کے بعد بچی کھچی مسلم قیادت کی جانب سے ایک عجیب و غریب مگر دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان اب چونکہ بارہ فیصد رہ گئے ہیں لہذا کوئی پارٹی نہ بنائیں بلکہ ہر پارٹی میں اپنی جگہ بنائیں، یوں جو بھی پارٹی حکومت میں آئے گی اسے مسلمانوں کا خیال رکھنا ہوگا... یعنی لڑائی کسی بھی طرح ۱۲ فیصد بمقابلہ ۸۸ فیصد نہ ہونے پائے، واضح رہے کہ امریکہ کے یہودی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
یہ حکمت عملی جاری رہی اور پانچ فیصد برہمن، دس سے بارہ فیصد بقیہ اعلیٰ ذات ہندؤوں اور بیس فیصد دلتوں کے بیچ ۱۵ فیصد مسلمانوں کی اہمیت بھی اتنی ہی تھی اور بی جے پی جیسی پارٹی بھی مختار عباس نقوی اور سید شاہنواز حسین جیسے مسلمانوں کو رکھنے پر مجبور تھی، لیکن اسی دوران ۲۰۱۰ کی دہائی میں ہندوستانی سیاست میں اویسی برادران کو عروج حاصل ہوا، اور انہوں نے وہی کیا جسے مسلمان اب تک ٹالتے آرہے تھے یعنی لڑائی مذہبی بن گئی اور پندرہ بمقابلہ پچاسی کا کھیل شروع ہوگیا۔
اویسی برادران نے جوشیلی تقریروں سے مسلمان علاقوں میں قدم تو جمائے لیکن اترپردیش اور بہار جیسی اہم ریاستوں کے جاہل ہندؤوں کو متحد کردیا۔
یوپی جیسی بڑی ریاست میں ستر سالوں تک ذات پات پر ووٹ پانے والی پارٹیاں منظر سے ہی غائب ہوگئیں، اویسی نے یو پی، بہار، مہاراسٹرا اور گجرات میں اپنے نمائندے پورے کرّوفر سے اتارے ہندو سہم گئے کہ لو ایک داڑھی والا آیا، اویسی کے ہاتھ یو پی کی ایک نشست بھی نہ لگی مگر بی جے پی نے پورا یوپی صاف کردیا، سماجوادی کے گڑھ اُنّاو میں ڈمپل یادو کو خود یادووں نے ہرادیا۔
یہی وجہ ہے کہ کانگریس، سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی نے اویسی پر بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کا الزام لگایا، جوکہ بادی النظر میں بالکل درست ہے، ان کا بی جے پی سے کنکشن بھلے نہ ہو مگر ان کی سیاسی تقریروں نے بی جے پی کو اتنا ہی فائدہ پہنچایا جتنا قیام پاکستان نے آر ایس ایس کو۔
اویسی برادران کی جوشیلی تقریروں میں گم ہوکر مسلمان بھی اس نکتے کو بھول گئے کہ پندرہ فیصد رہ کر آپ قانونی لڑائی تو لڑسکتے ہیں مگر ووٹ کی لڑائی تدبیر سے لڑنی ہوتی ہے۔
بی جے پی نے ہر مسئلے پر اویسی کو آگے بڑھایا ہر اختلافی مسئلے میں ان کا جوشیلا انٹرویو لیا۔
مسلمانوں کی آنکھیں تو تب کھلیں جب ۲۰۱۴ کے بعد بھاجپا نے ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور تاریخ کے بدترین اور کھلم کھلا فسادات ہمارا مقدر بن گئے۔
حالیہ واقعات کی کڑیاں ملائیں کشمیر، رام مندر، ماب لنچنگ، دہلی فسادات، گولی مارنے کے نعرے.... یہ سب کے سب ۲۰۱۰ کے بعد شروع ہوئے ہیں اب نہ اویسی کی تقریریں چلتی ہیں نہ دلیلیں۔
این آرسی اور سی اے اے پر احتجاج ہو یا شاہین باغ کا دھرنا کہیں بھی کوئی لیڈر نظر نہیں آیا، ظاہر ہے اویسی کا زور بس علاقائی تھا اور رہے گا، نتجتا ہندؤوں کو تو کپل مشرا کی طرح ہر سڑک سے لیڈر مل جاتا ہے مگر مسلمان پیدل ہوگئے۔
اسی ہندو مسلم چپقلش کا نتیجہ ہے کہ ۱۹۸۵ کے شاہ بانو معاملے میں مسلمانوں کا خیال کرتے ہوئے آئین ہند میں ترمیم کردینے والی کانگریس اور کیجریوال جیسا سلجھا ہوا انسان بھی اب ایک نظر ہندو ووٹروں کی طرف بھی دیکھنے پر مجبور ہیں۔
کیا ۲۰۱۰ سے پہلے بی جے پی اور آر ایس ایس کا وجود نہیں تھا؟ بالکل تھا، مگر انہیں ہندؤوں کو متحد کرنے کیلئے کوئی مضبوط مخالف نہیں ملا تھا جو اویسی اور وارث پٹھان جیسوں کی نا عاقبت اندیشی نے دیا ہے۔
صرف اور صرف راہ حل یہ ہے کہ مسلمان تدبیر سے کام لیں اور یوپی، بہار اور دہلی جیسی ریاستوں میں تمام پارٹیوں میں اپنی نمائندگی بڑھائیں،،، اویسی کو دلائل تک محدود رکھیں، سیاسی جنگ میں اکیلے کودنا زہر ہے، اور اگر دلتوں سے اتحاد کرنا ہی ہے تو ایم آئی ایم اپنا نام بدل کر جمہوری نام سے اترے، سمجھنا ہوگا کہ اس پارٹی کا یہ نام ان کے پیشرؤوں نے ایک مسلمان ریاست میں رکھا تھا نہ کہ کسی فرقہ پرستی کے عفریت میں جکڑے ملک میں۔
آر ایس ایس نے اپنی سیاسی پارٹی کا نام ہندو جنتا پارٹی نہیں بلکہ بھاتی جنتا پارٹی رکھا تھا تو مقصد عوام کو اسی ایہام میں ڈالنا تھا کہ ہم سب کے ساتھ ہیں۔
اکالی دل اور شیو سینا دو ایسی پارٹیاں ہیں جو مذہبی نام سے ہیں مگر لاکھ کوششوں کے باوجود وہ اپنی ریاست سے باہر نہ نکل سکیں۔
اویسی کو سمجھنا ہوگا کہ یہ جمہوری نظام ہے یہاں خالی خولی لفاظیوں سے عوام کو اپنے دام میں لایا جاتا ہے، حقیقی عزائم دل میں رکھے جاتے ہیں۔
لہذا اویسی نے اگر اپنی مقبولیت اور قابلیت کا دانشمندانہ فائدہ نہ اٹھایا تو یہ قابلیت محمد علی جناح کی قابلیت کی زیراکس کاپی بن جائے گی۔
موجودہ حالات میں ووٹ دینا تو دور، مجلس اتحاد المسلمین کا ترجمہ جان کر ہی ہندؤوں کا پتہ پانی ہوجائے گا۔
تحریر: جوہر عباس خان
نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔